Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تمہارے اوپر نگرانی کرنے والا بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آجاتی ہے تو اس کو ہمارے فرشتے قبض کرلیتے ہیں، اور وہ کوتاہی نہیں کرتے
اللہ غالب ہے وہ نگرانی کرنے والے فرشتوں کو بھیجتا ہے اور ہر مصیبت سے نجات دیتا ہے ان آیات میں اول تو یہ فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے اسے کوئی عاجز نہیں کرسکتا وہ اپنے بندوں کے بارے میں جو کچھ ارادہ فرمائے اس سے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر فرمایا (وَ یُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ) اور وہ تم پر اپنے نگران بھیجتا ہے۔ اس سے اعمال لکھنے والے فرشتے مراد ہیں جیسا کہ سورة الانفطار میں فرمایا (وَ اِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ) (اور تمہارے اوپر نگران ہیں جو عزت والے کاتب ہیں وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو) بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے کاتبین کے علاوہ دوسرے فرشتے مراد ہیں جو آگے پیچھے آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور بندوں کی حفاظت کرتے ہیں جیسے سورة رعد میں فرمایا (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ ) اگر عموم لفظ سے دونوں قسم کے فرشتے مراد لیے جائیں تو اس میں بھی کوئی بُعد نہیں۔ اعمال لکھنے والے فرشتے حسنات اور سیئات لکھتے ہیں۔ جس میں اقوال و اعمال سب آجاتے ہیں۔ سورة ق میں فرمایا (مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیدٌ) (انسان جو بھی کسی بات کا تلفظ کرتا ہے تو اس کے پاس نگران موجود ہے تیار) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ تمہارے پاس رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے آگے پیچھے آتے جاتے ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نماز میں ان کا اجتماع ہوجاتا ہے پھر وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس رہے تھے اوپر چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ ان سے دریافت فرماتے ہیں حالانکہ وہ اپنے بندوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب میں عرض کرتے ہیں کہ ہم نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس گئے تو اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج 1 ص 62 از بخاری و مسلم) پھر فرمایا : (حَتّآی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا) (یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے قاصد اس کو اٹھا لیتے ہیں) یعنی زندگی بھر جو فرشتے بندوں کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں وہ کار مفوضہ انجام دیتے رہتے ہیں پھر جب زندگی کی مدت ختم ہوجاتی ہے اور مقرر اجل آپہنچتی ہے تو وہ فرشتے روح قبض کرلیتے ہیں جو اس کام پر مقرر ہیں۔ صاحب روح المعانی نے ج 7 ص 116 حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہاں رُسُلُنَا سے ملک الموت کے اعوان یعنی مددگار مراد ہیں۔ (وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ) (اور یہ فرشتے جو روح قبض کرنے پر مقرر ہیں کچھ بھی کوتاہی نہیں کرتے)
Top