Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 50
قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّیْ مَلَكٌ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَقُوْلُ : نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ : خزانے اللّٰهِ : اللہ وَلَآ : اور نہیں اَعْلَمُ : میں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَلَآ اَقُوْلُ : اور نہیں کہتا میں لَكُمْ : تم سے اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا : مگر مَا يُوْحٰٓى : جو وحی کیا جاتا ہے اِلَيَّ : میری طرف قُلْ : آپ کہ دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہے الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ : سو کیا تم غور نیں کرتے
آپ فرما دیجیے ! کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میں غیب کو جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو اسی کا ابتاع کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ آپ فرما دیجیے کیا برابر ہوسکتا ہے اندھا اور دیکھنے والا کیا تم غور نہیں کرتے
نبوت کے لوازم میں مالدار یا غیب دان ہونا نہیں ہے : لوگ یہ سمجھے تھے کہ نبی مال و دولت کے اعتبار سے ہم سے زیادہ ہونا چاہئے۔ چونکہ اہل دنیا کے نزدیک دنیا ہی بڑی چیز ہے اس لیے نبوت اور رسالت کا مدار بھی مال زیادہ ہونے پر سمجھتے تھے ایسے لوگوں کی جاہلانہ بات کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا (قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ ) (آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں) خزانے پاس ہونا نبوت و رسالت اور مقبولیت عند اللہ کی دلیل نہیں ہے۔ جس بات کی دعوت دی جا رہی ہے اس میں غور کرو اور دلائل کر سمجھو جو اثبات رسالت کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ مالدار ہونے کو نبوت کا معیار بنانا جاہلانہ بات ہے۔ کچھ لوگ یوں کہتے تھے کہ غیب کی باتیں بتاؤ تو ہم آپ کو سچا جانیں ان کو بھی جواب دیدیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ سے اعلان کرا دیا کہ (وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ ) (میں غیب نہیں جانتا ہوں) غیب کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے وہ جس کو جتنا چاہے عطا فرما دے اور غیب دانی نبوت و رسالت کی یا مقبولیت عنداللہ کی شرط نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو آج بھی دیکھا جاتا ہے کہ مرشدین صالحین اور مصلحین سے رجوع نہیں کرتے کیونکہ وہ لوگ غیب کی خبریں نہیں بتاتے، اور جو شعبدے باز گدیاں سنبھالے بیٹھے ہیں اٹکل پچو، کاہنوں کی طرح کچھ باتیں بتاتے رہتے ہیں۔ ان باتوں میں سے کوئی بات ٹھیک نکل جاتی ہے تو ان ہی لوگوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، اور ان کو اللہ کا مقبول بندہ سمجھ لیتے ہیں ان میں بعض لوگ صاحب کشف بھی ہوتے ہیں۔ کشف شرعاً بالکل معتبر نہیں اور نہ یہ بزرگی کی دلیل سے کشف بعض مرتبہ فاسقوں بلکہ جانوروں اور دیوانوں کو بھی ہوتا ہے اس کو مقبولیت عنداللہ کی دلیل سمجھنا غلط ہے ایمان اور اعمال صالحہ اور تقویٰ مدار مقبولیت ہے جو لوگ دنیا دار ہیں، بےنمازی ہیں، فسق و فجور میں مبتلا ہیں ان کو مرشد بنانا اور ان کا معتقد ہونا بہت بڑی گمراہی ہے۔ پھر فرمایا (وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ) (آپ فرما دیجیے کہ میں یہ نہیں کہ تاکہ میں فرشتہ ہوں) لہٰذا میرے اندر فرشتوں والی صفات تلاش نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اسی میں ہے کہ انسانوں کا نبی انسان ہی ہو۔ انسانوں میں گھل مل کر ان کی حاجات کو اور صفات کو جان کر احکام سکھائے۔ قول سے بھی تربیت کرے اور عمل سے بھی۔ مشرکین کو اعتراض تھا کہ (مَا لِھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاسْوَاقِ ) (اس رسول کا کیا حال ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے) یہ ان لوگوں کا جاہلانہ اعتراض تھا وہ یہ نہیں سمجھتے کہ کھانا کھانے کا طریقہ اور بازار کے احکام سکھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر نبی کھانا نہ کھائے اور بازار میں نہ جائے تو متعلقہ احکام کون بتائے۔ منصب نبوت کے متعلق جو ان کے غلط اشکالات یا معاندانہ اعتراضات تھے۔ مذکورہ بالا آیت میں ان سب کی تردید فرمائی۔ (اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ ) (آپ فرما دیں کہ میں تو صرف اسی کی ابتاع کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے) میں وحی الٰہی کا بندہ ہوں جو حکم الٰہی ہوتا ہے اس پر خود بھی عمل کرتا ہوں اور تمہیں بھی وہی بتاتا ہوں آخر میں فرمایا (قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُ ) (آپ فرما دیجیے کیا برابر ہوسکتا ہے نا بینا اور بینا) یعنی یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ تمہارے پاس اللہ کی آیات آگئیں، کلام اللہ سنایا جاتا ہے جس کی بلاغت تمہارے نزدیک مسلم ہے اور جس کے مقابلہ میں تم چھوٹی سی سورت بھی نہیں لاسکتے، اور بھی معجزات ہیں جنہیں دیکھتے رہتے ہو۔ ضد اور عناد کو چھوڑو۔ بصیرت کی آنکھوں سے دیکھو اور غور و فکر کرو۔ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ (کیا تم غور نہیں کرتے) اگر غور کریں تو حق قبول کرنے کا راستہ نکل آئے اور سب اعتراضات رفع ہوجائیں۔ علم غیب کے بارے میں اہل السنۃ والجماعت کا عقیدۃ : اہل السنۃ و الجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق سے زیادہ علم دیا اور علوم غیبیہ کا آپ کے برابر کسی مخلوق کو علم نہیں ہے آپ کا علم تمام اولین و آخرین سے زیادہ ہے۔ اور یہ علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔ جس کو سورة آل عمران میں فرمایا (وَ مَا کَان اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ) اور سورة جن میں فرمایا (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖٓ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّسُوْلٍ ) لیکن تمام کائنات اور غیر کائنات کو علم محیط ہونا یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے اس لیے عالم الغیب علی الاطلاق صرف اللہ ہی ہے وہ عالم الغیب بھی ہے اور عالم الشہادۃ بھی۔ جیسا کہ سورة سجدہ اور سورة حشر میں فرمایا ہے، اور سورة نمل میں فرمایا (قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ ) بعض لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ موت سے پہلے آنحضرت ﷺ کو تمام علوم غیبی عطا کردیئے گئے تھے۔ یہ ان لوگوں کا دعویٰ بےدلیل ہے اور جھوٹ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خود ایسی باتیں بتائیں کہ قیامت کے دن ایسا ایسا ہوگا اور مجھے اس کا علم اس وقت دیا جائے گا۔ مثلاً فرمایا کہ حوض کوثر پر میرے پاس بہت سے لوگ آئیں گے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو ہٹا دیا جائے گا میں کہوں گا کہ یہ میرے آدمی ہیں فرشتے کہیں گے کہ آپ نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی باتیں نکالی تھیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 487) ان نئی باتوں میں سے یہ تھی ہے کہ لوگوں نے قرآن و حدیث کے خلاف اپنے عقیدے بنا لیے اور رسول اللہ ﷺ کا علم اللہ تعالیٰ کے برابر بتادیا۔ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی عالم الغیب کہنے لگے۔ حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا میں جو شفاعت کے لیے سجدہ میں سر رکھونگا تو اللہ کی وہ حمدیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ میرے دل میں ڈالیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 488) اس سے صاف واضح ہے کہ موت کے وقت سے پہلے بھی سب علوم نہیں دئیے گئے۔ محبت کے دعویدار قرآن و حدیث کی تصریحات بھی نہیں جانتے۔ ہذا من العجائب۔
Top