Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 163
لَا شَرِیْكَ لَهٗ١ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ
لَا شَرِيْكَ : نہیں کوئی شریک لَهٗ : اس کا وَبِذٰلِكَ : اور اسی کا اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا وَاَنَا : اور میں اَوَّلُ : سب سے پہلا الْمُسْلِمِيْنَ : مسلمان (فرماں بردار)
اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں ماننے والوں میں سب سے پہلا فرماں بردارہوں
(وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ) (اور مجھے اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں) یہ اولیت اس امت کے اعتبار سے ہے یعنی میں امت موجودہ میں جو آخر الامم ہے سب سے پہلا مسلم ہوں اور اللہ تعالیٰ کا فرمانبر دار ہوں۔ دیگر حضرات انبیاء (علیہ السلام) بھی اپنی اپنی امتوں میں سب سے پہلے مسلم اور فرمانبر دار تھے۔ و ھٰذا شان کل نبی بالنسبۃ الیٰ اُمتہٖ (روح المعانی) اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ میں صرف دعوت دینے والا ہی نہیں عمل کرنے والا بھی ہوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بار گاہ خداوندی میں یوں عرض کیا تھا۔ (سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر نبی ایمان لانے کا اور اپنی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کا مکلف ہوتا تھا۔ اور امت کی نسبت ایمان اور اعمال میں اسے اولیت حاصل ہوتی تھی قربانی کی دعا میں بھی آیت بالا کے الفاظ (اِنَّ صَلاَتِیْ ) سے لے کر الْمُسْلِمِیْنَتک وارد ہوئے ہیں لیکن اس میں اول المسلمین نہیں بلکہ (مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ) ہے۔ چونکہ امت کو دعا کی تعلیم دینا تھا اور قربانی کے وقت پڑھوانا تھا اس لیے (اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ) کی بجائے خود بھی (وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ) پڑھا۔ (کماروی ابو داؤد ج 2 ص 30)
Top