Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کردی اور گروہ گروہ بن گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں، بس ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے۔ پھر ان کے وہ کام ان کو جتا دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
دین میں تفریق کرنے والوں سے آپ بری ہیں انسان میں سب سے بڑی بیماری تو یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو نہ مانے یا مانے لیکن اس کے ساتھ شرک کرے اور اس نے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعہ اپنا دین بھیجا اس کی تکذیب کرے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور اس کے دین کو جھٹلائے۔ اور دوسری گمراہی یہ ہے کہ وہ اللہ کو بھی مانے اس کے بھیجے ہوئے دین کو ماننے کا دعویدار بھی ہو لیکن اللہ کے دین میں اپنی طرف سے ایسی باتیں داخل کر دے جو اللہ تعالیٰ کے دین میں نہیں ہیں۔ شیطان کی یہ بہت بڑی چالاکی ہے۔ بہت سے وہ لوگ جو یوں کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے دین کو قبول کیا جو اس نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ بھیجا۔ ان میں بعض لوگوں پر شیطان اپنا یہ داؤ چلاتا ہے اور ان کو ایسے افکار و آراء اواوہام واہواء پر ڈال دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ خداوند قدوس کے بھیجے ہوئے دین کے دائرہ سے باہر ہوجاتے ہیں، وہ اپنے خیال میں دین کے دائرے میں ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دین سے خارج ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقبول بندے ہیں لیکن وہ بار گاہ خداوندی سے مردود ہوتے ہیں، اس امت سے پہلے جو امتیں گزری ہیں انہوں نے ایسی حرکتیں کیں۔ یہود و نصاریٰ کی گمراہی معروف ہی ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ تھا اور اب بھی ہے کہ ہم اللہ کے مقرب بندے ہیں لیکن اللہ کے دین کو چھوڑ کر جس کی بنیاد ہی توحید پر ہے مشرک ہوگئے اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بتادیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لائے اور ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔ پھر سیدنا حضرت محمد ﷺ پر ایمان نہ لائے نیز نصاریٰ بھی دین حق سے ہٹ گئے اور انہوں نے اپنے دین میں شرک ملا دیا۔ انہیں میں سے کسی نے حضرت مسیح بن مریم کے بارے میں یہ عقیدہ بنا لیا کہ ابن مریم اور اللہ ایک ذات کا نام ہے اور بعض لوگوں نے انہیں اللہ کا بیٹا بتایا۔ اور بعض لوگوں نے یوں کہا معبود تین ہیں یعنی اللہ کے ساتھ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ بھی معبود ہیں۔ پھر بعض یہود نے انہیں عقیدہ تکفیر پر ڈال دیا اب وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قتل (العیاذ باللہ) ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگیا، ان کے نزدیک اتوار کے دن چرچ میں جانے سے اور بعض گناہ پوپ کے سامنے بیان کردینے سے اور بعض یوں ہی عام طور پر معاف ہوجاتے ہیں۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ ) مشرکین عرب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کے مدعی تھے سب کو معلوم ہے ان کا دین توحید خالص پر مبنی تھا۔ انہوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں آگ میں ڈالا جانا تک منظور کیا مگر توحید کی دعوت نہ چھوڑی۔ لیکن ان کے دین کے ماننے والوں نے (جن میں مشرکین عرب بھی تھے) بت پرستی شروع کردی اور عین کعبہ شریف میں بت رکھ دیئے۔ جب ان کے سامنے توحید کی دعوت رکھی گئی تو ان کو اچھوتا معلوم ہوا اور کہنے لگے۔ (اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ الھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ) اور جب ان پر بت پرستی کی نکیر کی گئی اور بتایا گیا کہ یہ شرک ہے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے تو کہنے لگے کہ (مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفیٰ ) (کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کرتے ہیں) ۔ کبھی کہتے تھے (ھٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ) (ہم نے جو یہ معبود بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے) یہ ساری باتیں خود تراشیں شرک کیا گمراہ ہوئے اور پھر بھی اسی خیال میں غرق کہ اللہ ہم سے راضی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں یعنی اس کے وجود کا یقین رکھتے ہیں ان میں بہت سے لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو نہیں مانا اور جنہوں نے مانا انہوں نے اللہ کے دین میں اللہ کی ناراضگی کی باتوں کو شامل کردیا اور دین حقیقی میں تفریق کی صورتیں نکال دیں اور بہت سی جماعتوں میں بٹ گئے۔ (صاحب روح المعانی 8 ص 68) نے سنن ترمذی اور حلیہ ابو نعیم اور شعب الایمان للبیہقی سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بیان فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ اے عائشہ ؓ جن لوگوں نے اپنے دین سے جدائی اختیار کی اور فرقے فرقے بن گئے یہ بدعتوں والے لوگ ہیں اور وہ لوگ ہیں جو اپنی خواہشوں پر چلتے ہیں اور جو اس امت کے گمراہ لوگ ہیں ان کے لئے کوئی توبہ نہیں۔ اے عائشہ ! ہر گناہ والے کے لئے توبہ ہے سوائے اہل بدعت اور اصحاب اہواء کے۔ کیونکہ ان کے لئے توبہ نہیں میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس روایت کے پیش نظر اب یوں کہا جائے گا کہ مشرکین کا حال بیان کرنے کے بعد اہل بدعت کا حال بیان فرمایا کہ اہل بدعت کا حال اہل شرک سے بعید نہیں ہے۔ گمراہ فرقوں کا تذکرہ : شیطان اس فکر میں لگا رہتا ہے کہ انسانوں کو کیسے گمراہی پر لگاؤں اول تو ایمان قبول کرنے نہیں دے گا۔ دوم جو لوگ مومن ہیں ان کے دلوں میں ایمان کی طرف سے شکوک ڈالتا ہے۔ پھر جو لوگ استقامت کے ساتھ ایمان پر رہیں اور شکوک و شبہات سے متاثر نہ ہوں ان کو ایسی ایسی باتیں سجھا دیتا ہے جو ایمان کے خلاف ہوتی ہیں۔ پہلی امتوں کے ساتھ جو اس نے حرکتیں کیں۔ اس امت کے ساتھ اس کا وہی طرز عمل ہے۔ اہل ایمان کے دلوں میں ایسی چیزیں ڈالتا ہے جو گمراہی کی چیزیں ہیں اور چیزوں کے اختیار کرنے سے ایمان جاتا رہتا ہے۔ جتنے ملحد اور زندیق اس امت میں گزرے ہیں اور اب موجود ہیں ایمان کا نام لیتے ہوئے بھی کفر اختیار کیے ہوئے ہیں اور چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو صحیح راہ پر سمجھتے ہیں۔ اس لیے توبہ بھی نہیں کرتے، جو لوگ اپنے امام کے اندر اللہ تعالیٰ کا حلول مانتے ہیں اور جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور جو لوگ حضرت علی ؓ کو خدا بتاتے رہے اور جو لوگ خاتم النّبیین ﷺ پر نبوت ختم ہونے کے منکر ہیں اور جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل کو حجت نہیں مانتے اور جو لوگ عقیدہ بدا کے قائل ہیں یہ سب لوگ سیدنا محمد ﷺ کے دین سے بری ہیں۔ اسلام سے خارج ہیں اور آنحضرت ﷺ ان سے بیزار ہیں۔ پھر اگر کوئی شخص ایسی بدعت اعتقادیہ میں مبتلا نہ ہو جو اسلام سے نکال کر کفر میں داخل کر دے تو شیاطین اسے اعمال بدعت میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل بدعت نے طرح طرح کی بدعتیں نکال رکھی ہیں۔ اور ان بدعات کی وجہ سے بہت سے فرقے بنے ہوئے ہیں جو لوگ بدعت کے اعمال میں مبتلا ہیں ان کو بھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ کیونکہ اعمال بدعت کو ثواب سمجھ کرتے ہیں اور جس عمل کو نیکی سمجھتے ہیں اس سے توبہ کیوں کرنے لگے۔ بدعت اعتقادی ہو یا عملی اس کے ایجاد کرنے والوں کو اور اس پر عمل کرنے والوں کو اصحاب الا ہواء کہا جاتا ہے۔ اَھْوَاء ھَوٰی کی جمع ہے ہر خواہش نفس کو عربی میں ہوٰی کہتے ہیں جو لوگ بدعتیں نکالتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں کرتے جو اپنی سمجھ میں آتا ہے اور جو اپنا نفس چاہتا ہے اسے دین میں داخل کرلیتے ہیں۔ انہیں لاکھ سمجھاؤ کہ یہ عمل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں لیکن وہ برابر اسی میں لگے رہتے ہیں۔ سنتوں پرچلنے سے ان کے دل خوش نہیں ہوتے۔ بدعتیں ان کے اندر رچ بس جاتی ہیں۔ ان بدعتوں کی وجہ سے بہت سے فرقے وجود میں آجاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا جیسا بنی اسرائیل پر آیا تھا (پوری طرح ان کے مطابق عمل کریں گے) جیسا کہ ایک جوتا دوسرے جوتا کے موافق بنایا ہوا ہوتا ہے حتیٰ کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا تھا تو میری امت میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گے جو ایسا کریں گے۔ (پھر فرمایا) کہ بنی اسرائیل کے 72 فرقے ہوگئے تھے۔ اور میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی۔ یہ سب فرقے دوزخ میں ہوں گے۔ سوائے ایک ملت کے ! صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ ملت کون سی ہے ہے جو جنت والی ہے ؟ آپ نے فرمایا مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ (کہ جس ملت اور دین پر میں اور میرے صحابہ ہیں وہ جنت والی ہے) (رواہ الترمذی) اب سارے فرقے غور کریں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کس دین پر تھے ؟ اور جو لوگ اس طریقہ سے ہٹے ہوئے ہیں وہ اپنا انجام سوچ لیں۔ اور خاص طور پر وہ لوگ غور کریں جو حضرات صحابہ ؓ کو مسلمان ہی نہیں مانتے اور جو لوگ ان میں کیڑے ڈالتے ہیں اور ان کی بشری کمزوریوں کو تاریخ کی کتابوں سے نکال کر اچھالتے ہیں (جبکہ تاریخی روایات بےسند ہوتی ہیں) ۔ (اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّءُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ) (ان کا معاملہ بس اللہ ہی کے حوالہ ہے وہ انہیں جتا دے گا جو کام وہ کرتے تھے) ۔ فائدہ : بعض لوگ جنہیں قرآن و حدیث کا علم نہیں۔ اور اجتہاد و استنباط کی شرعی ضرورت سے ناواقف ہیں وہ لوگ ائمہ اربعہ کے چاروں مذہبوں کو چار فرقے بتاتے ہیں اور اپنی جہالت سے ان مذاہب کے ماننے والوں کو انہیں بہتر (72) فرقوں میں شمار کرتے ہیں جو گمراہ ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ کے مقلدین سب ایک ہی فرقہ ہیں اور ایک ہی جماعت ہیں اور اسی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے کے امام کا ادب سے نام لیتے ہیں۔ اور ایک مذہب کے مقلدین دوسرے مذہب کے علماء کو (رح) کی دعا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ ان میں اعتقادیات میں اختلاف نہیں۔ فروعی مسائل میں اختلاف ہے چونکہ یہ اختلاف حضرات صحابہ میں بھی تھا اس لیے نجات پانے والی جماعت (جس کے بارے میں ما انا علیہ و اصحابی فرمایا) اس سے خارج نہیں ہیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے والے اور حضرات صحابہ کرام ؓ کے طریق کو اپنانے والے عموماً مذاہب اربعہ ہی کے متبعین رہے ہیں اور ہیں۔
Top