Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 122
اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْكٰفِرِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اَوَ : کیا مَنْ : جو كَانَ مَيْتًا : مردہ تھا فَاَحْيَيْنٰهُ : پھر ہم نے اس کو زندہ کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا لَهٗ : اس کے لیے نُوْرًا : نور يَّمْشِيْ : وہ چلتا ہے بِهٖ : اس سے فِي : میں النَّاسِ : لوگ كَمَنْ مَّثَلُهٗ : اس جیسا۔ جو فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے لَيْسَ : نہیں بِخَارِجٍ : نکلنے والا مِّنْهَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح زُيِّنَ : زینت دئیے گئے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے (عمل)
جو شخص مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور اس کے لیے ایسا نور مقرر کردیا جس کے ذریعہ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا یہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیریوں میں ہے ان سے نکلنے والا نہیں۔ کافر جو عمل کرتے ہیں
مومن زندہ ہے اس کے لیے نور ہے اور کافر اندھیریوں میں گھرا ہوا ہے علامہ بغوی معالم التنزیل ج 2 ص 128 میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت دو خاص آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ پھر ان دو آدمیوں کے تعین میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ (وَ جَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا) سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ( رسول اللہ ﷺ کے چچا) مراد ہیں، اور (مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ ) سے ابو جہل مراد ہے۔ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ ابو جہل نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر گھوڑے کی لید پھینک دی تھی۔ حضرت حمزہ ؓ کو اس کا پتہ چلا جو شکار کر کے ہاتھ میں کمان لیے ہوئے آ رہے تھے اور ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ ابو جہل کی حرکت کا علم ہوا تو غصہ میں بپھر گئے اور ابو جہل کے پاس آکر اس کے سر پر کمان ماری وہ عاجزی کرنے لگا اور کہنے لگا کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ کیسا دین لے کر آئے ہمیں بیوقوف بناتے ہیں اور ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں اور ہمارے باپ دادوں کے مخالف ہیں۔ اس پر حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا کہ تم سے بڑھ کر بیوقوف کون ہوگا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہو۔ پھر انہوں نے اسی وقت اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اس پر آیت کریمہ (اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحیَیْنٰہُ ) نازل ہوئی۔ سبب نزول جو بھی ہو۔ آیت کا عموم ہر کافر اور ہر مومن کو شامل ہے۔ جو لوگ پہلے کافر تھے وہ کفر کی وجہ سے مردہ تھے۔ جس نے اسلام قبول کرلیا وہ زندوں میں شمار ہوگیا اور اسے نور ایمان مل گیا۔ وہ اسی نور ایمان کو لے کر لوگوں میں پھرتا ہے اور یہ نور ایمان اسے خیر کا راستہ بتاتا ہے اور اعمال صالحہ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا جو مردہ تھا اسے ہم نے زندہ کردیا ایمان کا نور دیدیا وہ اس جیسا کہاں ہوسکتا ہے جو اندھیریوں میں ہے۔ برابر انہیں میں گھرا ہوا ہے وہاں سے نکلنے والا نہیں۔ پھر فرمایا (کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) جس طرح اہل ایمان کے لیے ایمان مزین کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے اعمال کفریہ مزین کردیئے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے اور وہ اپنی حرکت بد کو اچھا سمجھ رہے ہیں۔
Top