Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 118
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰیٰتِهٖ مُؤْمِنِیْنَ
فَكُلُوْا : سو تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو ذُكِرَ : لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو بِاٰيٰتِهٖ : اس کی نشانیوں پر مُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
سو اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان لائے ہو،
حلال ذبیحہ کھاؤ، اور حرام جانوروں کے کھانے سے پرہیز کرو درمنثور ج 3 ص 41 میں ان آیات کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہودی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بطور اعتراض یوں کہا کہ جس جانور کو ہم قتل کردیں (یعنی ذبح کردیں) اسے تو آپ کھالیتے ہیں اور جس جانورکو اللہ تعالیٰ قتل کر دے (یعنی اسے موت دیدے اور وہ بغیر ذبح کے مرجائے) آپ اس کو نہیں کھاتے۔ ایک روایت یوں بھی ہے جسے ابن کثیر نے ج 2 ص 169 میں نقل کیا ہے کہ فارس کے لوگوں نے قریش مکہ کو آدمی بھیج کر یہ سمجھایا کہ تم محمد ﷺ سے یوں بحث کرو کہ آپ اپنے ہاتھ میں چھری لے کر جس جانور کو ذبح کرتے ہیں وہ تو آپ کے نزدیک حلال ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ سونے کی چھری سے ذبح کرتے ہیں وہ آپ کے نزدیک حرام ہے۔ امام ترمذی نے تفسیر سورة الانعام میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم جسے خودقتل کرتے ہیں اسے کھالیتے ہیں اور جسے اللہ قتل کرتا ہے اسے نہیں کھاتے (یہ انہوں نے بطور اعتراض کے کہا) اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ) نازل فرمائی (قال الترمذی ہذا حدیث حسن غریب) پہلی روایت سے معلوم ہوا کہ یہ اعتراض یہود نے کیا تھا اور دوسری روایت سے معلوم ہوا ہے کہ اہل فارس کے سمجھانے اور سجھانے پر قریش مکہ نے کہا تھا۔ مفسرابن کثیر کہتے ہیں کہ یہودیوں سے اس اعتراض کا صادر ہونا بعید ہے کیونکہ وہ خود میتہ یعنی غیر ذبیحہ کو نہیں کھاتے تھے لیکن اس بات کی وجہ سے روایت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ معترض اندھا تو ہوتا ہی ہے جسے اعتراض کرنا ہو وہ کہاں سوچتا ہے کہ یہ بات مجھ پر بھی آسکتی ہے۔ اعتراض کرنے والے جاہلوں نے صرف موت کو دیکھ لیا اور ذبیحہ اور غیر ذبیحہ کے درمیان جو فرق ہے اس کو نہیں دیکھا لہٰذا اعتراض کر بیٹھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہر جانور کے کھانے کی اجازت نہیں دی۔ قرآن مجید میں اجمالاً ارشاد فرمایا کہ پاکیزہ جانور حلال ہیں اور خبیث جانور حرام ہیں۔ سورۂ اعراف میں ارشاد ہے (یُحِلُّ لَھُمُ الطّیِبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَآءِثَ ) کہ رسول اللہ ﷺ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ نیز بھیمۃ الانعام کے کھانے کی اجازت دیدی سوائے ان جانوروں کے جن کا استثناء فرما دیا (اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ ) اور مزید تفسیر کا بیان رسول اللہ ﷺ کی طرف سپرد فرمادیا۔ آپ نے حلال اور حرام جانوروں کی تفسیر بتادی لیکن جن جانوروں کو حلال قرار دیا ہے ان کے حلال ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان کو ذبح کردیا جائے۔ ذبح کا مطلب یہ ہے کہ گلے کی رگیں کاٹ دی جائیں جن سے جانور سانس لیتا ہے اور کھاتا پیتا ہے اور جن میں خون گزرتا ہے۔ ذبح کرنے سے بھی کسی جانور کا کھانا اس وقت حلال ہوگا جبکہ ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہو۔ (یعنی اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہو) ۔ ذبح کرنے والا جو اللہ کا نام لے کر ذبح کرے مسلمان یا کتابی یعنی یہودی یا نصرانی ہو۔ ان کے علاوہ اور کسی کا ذبیحہ حلال نہیں۔ ذبح کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ جانور کے اندر جو خون ہے وہ رگیں کٹنے سے نکل جاتا ہے خون کا کھانا پینا حرام ہے۔ جب خون نکلتا ہے تو اب گوشت بغیر خون کے رہ گیا لہٰذا ذبیحہ کا کھانا حلال ہوگیا۔ اعتراض کرنے والے نے فرق کو تو دیکھا نہیں اور اس بات کو سمجھا نہیں کہ ذبح کرنے میں کیا حکمت ہے اور ذبح کرنے سے جانور کیوں حلال ہوتا ہے اور اپنی موت مرجانے سے کیوں حرام ہوتا ہے یہ خون نکلنے والی بات ان کو سمجھ میں نہ آئی جو ذبیحہ اور غیر ذبیحہ میں فرق کرنے والی چیز ہے۔ اگر کوئی مسلم یا کتابی کسی جانور کو لاٹھی مار مار کر ہلاک کر دے۔ اگرچہ بسم اللہ پڑھ لے تو وہ جانورحلال نہ ہوگا۔ کیونکہ لاٹھیوں سے مارنے سے خون نہیں نکلا جو گلے کی رگوں سے نکل جاتا ہے ایسے جانور کا نام ” موقوذہ “ ہے جس کا ذکرسورۂ مائدہ کے شروع میں گزر چکا۔ جب معترضین نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے آیات بالا نازل فرمائیں اور مسلمانوں کو خطاب فرمایا کہ جب حلال جانور پر اللہ کا نام لیا گیا یعنی اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا اسے کھاؤ۔ اور جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا گیا اسے مت کھاؤ، دشمنوں کی باتوں میں نہ آؤ اور ان کے اعتراض کو کوئی وزن نہ دو اللہ نے تمہیں حلال کی تفصیل بتادی، اللہ کے حلال کیے ہوئے جانور کو نہ کھانا اور دشمنوں کی باتوں میں آجانا اہل ایمان کی شان کے خلاف ہے۔
Top