Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 81
اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَۙ
اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ : کیا بھلا اس بات کے بارے میں اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ : تم معمولی سمجھنے والے ہو۔ انکار کرنے والے ہو
کیا تم اس کام کو سرسری سمجھتے ہو
﴿اَفَبِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَۙ0081﴾ لفظ مُدْھِنُوْنَ کا ترجمہ صاحب روح المعانی نے متھاونون کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو معمولی چیز سمجھتے ہو پھر لکھا ہے کہ یہ لفظ ادھان سے ماخوذ ہے چمڑے کو تیل وغیرہ لگا کر جو نرم کرتے ہیں اس کو ادھان کہتے ہیں، بطور مجاز یا بطور استعارہ یہ لفظ لایا گیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم کی طرف جو مضبوط توجہ ہونی چاہئے تمہارے اندر وہ توجہ نہیں ہے اور ہمزہ استفہام لاکر اس پر توبیخ فرمائی۔ ” یوں ہی سرسری بات سمجھتے ہو۔ “ یہ اس کا اصل ترجمہ ہے : (وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ 0082) اس کا ایک ترجمہ اور مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ تمہیں نزول قرآن کی نعمت پر شکر کرنا چاہئے تھا شکر کی بجائے تم نے جھٹلانے ہی کو اختیار کرلیا۔ اب تمہارا نصیب یہی رہ گیا کہ تم تکذیب کیا کرو اس صورت میں رزقکم بمعنی شکر کم یا بمعنی حظکم لیا جائے گا۔ قال صاحب الروح و قیل معنی الآیة وتجعلون شکر کم لنعمة القرآن انکم تکذبون بہ ویشیر الی ذلک ما رواہ قتادہ عن الحسن بئس ما اخذ القوم لانفسھم لم یرزقوا من کتاب اللّٰہ تعالیٰ الا التکذیب۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ ﴿فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ0075﴾ سے لے کر ﴿ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ 0082﴾ تک تمام آیات کا تعلق نزول قرآن مجید ہی سے ہو۔ ( صحیح مسلم صفحہ 59: ج 1) میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ آج صبح کچھ لوگ شاکر ہوئے اور کچھ لوگ کافر ہوئے جن لوگوں نے یوں کہا کہ یہ بارش اللہ کی رحمت ہے وہ لوگ شاکر ہوئے اور جن لوگوں نے یوں کہا کہ فلاں فلاں ستارہ کے سقوط یعنی نیچے جانے کی وجہ سے بارش ہوئی وہ لوگ کافر ہوئے اس پر ﴿ فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ0075 سے وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ 0082﴾ تک آیات نازل ہوئیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ﴿ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بارش نازل فرماتا ہے جو تمہارے لیے رزق کا سبب بنتی ہے اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے تم اللہ کی نعمت کی تکذیب کرتے ہو یعنی بارش کی نعمت کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہو اللہ تعالیٰ کی نعمت نہیں مانتے، علامہ نووی (رح) نے شرح مسلم میں شیخ ابوعمر ابن الصلاح سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پانچوں آیات ستاروں ہی کے بارے میں نازل ہوئیں، (جن کے سقوط اور غروب کو اہل عرب بارش کا ذریعہ سمجھتے تھے) کیونکہ پوری آیات کی تفسیر اس کی موافقت نہیں کرتی، بات یہ ہے کہ بارش کے بارے میں آیت کریمہ ﴿ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ 0082 ﴾ نازل ہوئی اور باقی آیات میں دوسرے مضامین بیان کیے گئے ہیں، چونکہ سب آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے حضرت ابن عباس ؓ نے ان سب کی تلاوت کردی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ آیت کی یہ تفسیر کہ تم نعمت قرآن کا شکر ادا کرنے کے بجائے تکذیب کو اختیار کرتے ہو، سبب نزول کے خلاف نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم میں دنیاوی اور اخروی دونوں قسم کی نعمتوں کا بیان ہے۔ قرآن کریم میں جو نعمتیں بیان کی گئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر خالق تعالیٰ شانہ کا شکر ادا کرنا لازم تھا لیکن تم شکر کی بجائے تکذیب اور انکار میں لگے ہوئے ہو اسی ناشکری میں یہ بات بھی ہے کہ بارش ہوتی ہے تو تم اسے ستاروں کیطرف منسوب کرتے ہو حالانکہ قرآن کریم میں بار ہا بتایا گیا کہ تمہارا عقیدہ صحیح عقیدہ کے خلاف ہے، بارش برسانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ قال صاحب الروح : فما جاء من تفسیر تکذبون بتقولون مطرنا بنوء کذا و كذا لیس المراد منہ الایمان نوع اقتضاہ الحال من التکذیب بالقرآن المنعوت بتلک النعوت الجلیلة وکون ذلک علی الوجہ الذی یزعمہ الکفار تکذیبا بہ مما لا ینطح فیہ کبشان وھذالا تمحل فیہ (صفحہ 157 ج : 27)
Top