Anwar-ul-Bayan - Al-Waaqia : 15
عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ
عَلٰي سُرُرٍ : اوپر تختوں کے ہوں گے مَّوْضُوْنَةٍ : سونے کی تاروں سے بنے ہوئے۔ بنے ہوئے
وہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر
سابقین اولین کی مزید نعمتیں : سابقین اولین کی مزید نعمتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ عَلٰى سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍۙ0015﴾ (یہ حضرات ایسے تختوں پر ہوں گے جو بنے ہوئے ہوں گے) قرآن کریم میں صرف لفظ موضونة ہے کس چیز سے بنے ہوئے ہوں گے اس کا ذکر نہیں ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ سونے کے تاروں سے اور جواہر سے ان کی بناوٹ ہوگی ﴿ مُّتَّكِـِٕيْنَ عَلَيْهَا مُتَقٰبِلِيْنَ 0016﴾ (ان تختوں پر تکیے لگائے ہوئے آمنے سامنے ہوں گے) اہل جنت کا تختوں پر بیٹھنا اس طرح سے ہوگا کہ کوئی کسی کی پشت نہیں دیکھ پائے گا۔ ﴿يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۙ0017﴾ (ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے یہ چیزیں لے کر آمدورفت کیا کریں گے) ﴿ بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِيْقَ 1ۙ۬ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍۙ0018﴾ (آبخورے اور آفتابے اور ایسا جام شراب جو بہتی ہوئی شراب سے بھرا جائے گا) اول تو خدام کے بارے میں فرمایا کہ وہ لڑکے ہوں گے اور ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے اور ہمیشہ خادم بنے رہیں گے نہ انہیں موت آئے گی اور نہ بڑھاپا۔ ﴿ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَۙ0017﴾ کو سورة الطور میں ﴿ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ ﴾ فرمایا ہے۔ یہ وِلْدَان اہل جنت کے پاس چھوٹے بڑے برتنوں میں پینے کی چیزیں لے کر آئیں گے۔ اکواب کو ب کی جمع ہے گول منہ کا پیالہ جس میں پکڑنے کا کڑا نہ ہو اسے کو ب کہا جاتا ہے اور اباریق ابریق کی جمع ہے ان سے وہ برتن مراد ہیں جن میں ٹونٹیاں لگی ہوئی ہوں، ان پینے کی چیزوں میں شراب بھی ہوگی جس کا سورة محمد کی آیت ﴿ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ﴾ میں تذکرہ فرمایا ہے لفظ خمر سے کسی کو نشہ آنے کا شبہ نہ ہو اس شبہ کو دور کرتے ہوئے ﴿ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا يُنْزِفُوْنَۙ0019﴾ فرمایا (نہ اس سے ان کو درد سر ہوگا اور نہ عقل میں فتور آئے گا) پینے کی چیزوں کے بعد کھانے کی چیزوں کا تذکرہ فرمایا ﴿ وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَۙ0020﴾ (اور میوے جن کو وہ پسند کریں گے) ﴿ وَ لَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُوْنَؕ0021﴾ (اور پرندوں کا گوشت جو ان کو مرغوب ہوگا) ۔ کھانے کی چیزوں کے تذکرہ کے بعداہل جنت کی بیویوں کا تذکرہ فرمایا ﴿ وَ حُوْرٌ عِيْنٌۙ0022 كَاَمْثَال اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُوْنِۚ0023﴾ (اور ان کے لیے گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی جیسے پوشیدہ رکھا ہوا موتی ہو) لفظ حور حوراء کی جمع ہے (اگرچہ اردو والے اس کو مفرد ہی سمجھتے ہیں) جس کا معنی ہے گوری سفید رنگت والی عورت اور عین عیناء کی جمع ہے جس کا ترجمہ ہے بڑی آنکھوں والی عورت ان دو لفظوں میں جنتی عورتوں کی خوبصورتی بیان فرمائی ہے پھر ان کے رنگ کی صفائی بیان کرتے ہوئے ﴿ كَاَمْثَال اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُوْنِۚ0023﴾ فرمایا یعنی وہ چھپے ہوئے موتیوں کی طرح سے ہوں گی۔ ﴿ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 0024﴾ (یہ ان کے اعمال کے صلہ میں ملے گا) ۔
Top