Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
سو منافقین کے بارے میں تم کو کیا ہوا کہ دو گردہ بن گئے اور اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں الٹا پھیر دیا، کیا تم چاہتے ہو کہ اسے ہدایت پر لے آؤ جسے اللہ نے گمراہ کردیا اور جسے اللہ گمراہ کر دے سو تو اس کے لیے کوئی راستہ نہ پائے گا۔
منافقوں اور دشمنوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے روح المعانی صفحہ 107: ج 5 میں مجاہد سے نقل کیا ہے کہ یہاں ان لوگوں کا بیان ہے جو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ آئے اور یہ ظاہر کیا کہ ہم مہاجر ہیں پھر وہ مرتد ہوگئے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اجازت مانگی کہ ہم مکہ معظمہ جاکر اپنا تجارتی سامان لے آئیں تاکہ تجارت کیا کریں، مسلمانوں کا آپس میں ان کے بارے میں اختلاف ہوا ایک جماعت نے کہا کہ یہ منافق ہیں دوسری جماعت نے کہا کہ یہ مومن ہیں۔ اللہ جل شانہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کا نفاق کھول کر بیان فرما دیا۔ اور ان کو قتل کرنے کا حکم دیا، اور ضحاک سے نقل کیا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جو مکہ معظمہ ہی میں رہ گئے تھے انہوں نے اپنے ایمان کا اعلان تو کیا لیکن ہجرت نہیں کی ان کے بارے میں حضرات صحابہ کرام ؓ کا اختلاف ہوا کچھ لوگوں نے ان سے میل محبت باقی رکھی اور کچھ لوگوں نے ان سے بیزاری ظاہر کردی اور کہنے لگے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہ آئے اور ہجرت نہیں کی لہٰذا ان سے ہماری بیزاری ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اس آیت میں بتادیا کہ وہ لوگ منافق ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب تک وہ ہجرت کرکے نہ آئیں اس سے دوستی نہ رکھیں۔ ان دو روایتوں کے بعد صاحب روح المعانی نے بحوالہ بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و احمد یوں نقل کیا ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ غزوہ احد کے موقعہ پر جب احد کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کے ساتھ روانہ ہونے والوں میں سے کچھ لوگ واپس ہوگئے ان واپس ہونے والوں کے بارے میں حضرات صحابہ ؓ میں اختلاف ہوا ایک جماعت کہتی تھی کہ ان کو قتل کردیں اور دوسری جماعت کہتی تھی کہ قتل نہ کیے جائیں اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث صفحہ 660: ج 2 پر ہے اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو جماعتیں بن گئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے اعمال بد کی وجہ سے واپس لوٹا دیا، اور ان کو گمراہ فرما دیا جسے اللہ نے گمراہ کردیا کیا تم ارادہ کرتے ہو کہ اس کو ہدایت دو ؟ اور فرمایا کہ جسے اللہ گمراہ فرما دے اس کے لیے تم کوئی صحیح راستہ پا ہی نہیں سکتے۔ اس کے بعد ان منافقین کے عزائم اور اردوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآءً ) کہ یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہوجاؤ جیسا کہ انہوں نے کفر اختیار کیا اور اس طرح سے وہ اور تم برابر ہوجاؤ ایسے نالائقوں کو دوست نہ بناؤ ہاں اگر فی سبیل اللہ ہجرت کرلیں جس سے ان کا ایمان متحقق ہوجائے تو ان سے دوستی کی جاسکتی ہے۔ ہجرت کو لفظ فی سبیل اللہ کے ساتھ مقید فرمایا کیونکہ جو ہجرت اللہ کی رضا کے لیے نہ ہو دنیاوی اغراض کے لیے ہو وہ ہجرت معتبر نہیں ہے۔ (آیات کا پورا مضمون سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات تینوں قسم کے منافقین کے بارے میں نازل ہوئیں لیکن تمام احکام سب کے بارے میں نہیں ہیں کیونکہ مدینہ منورہ میں جو منافقین تھے ان کو قتل نہیں کیا گیا۔ )
Top