Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 84
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا
فَقَاتِلْ : پس لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ لَا تُكَلَّفُ : مکلف نہیں اِلَّا : مگر نَفْسَكَ : اپنی ذات وَحَرِّضِ : اور آمادہ کریں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّكُفَّ : روک دے بَاْسَ : جنگ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) وَاللّٰهُ : اور اللہ اَشَدُّ : سخت ترین بَاْسًا : جنگ وَّاَشَدُّ : سب سے سخت تَنْكِيْلًا : سزا دینا
سو آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجیے آپ مکلف نہیں ہیں مگر اپنی جان کے، اور ایمان والوں کو ترغیب دیجیے، عنقریب اللہ کافروں کے زور کو روک دے گا اور اللہ بہت سخت ہے زور کے اعتبار سے اور بہت سخت ہے سزا دینے کے اعتبار سے۔
اللہ کی راہ میں قتال کیجیے، اہل ایمان کو ترغیب دیجیے علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ 457: ج 1 میں لکھتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ابو سفیان سے (جو مشرکین مکہ کا سپہ سالار تھا) وعدہ فرمایا تھا کہ ذیقعدہ میں بدر کے موقعہ پر پھر جنگ ہوگی، وعدہ کے مطابق جنگ کے لیے پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہوئی تو آپ نے لوگوں کو چلنے کے لیے دعوت دی اس پر بعض لوگوں کو نا گوار ہوا۔ لہٰذا اللہ جل شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی جس میں یہ ارشاد فرمایا کہ آپ اللہ کی راہ میں جنگ کریں اگر کوئی ساتھ نہ دے تب بھی جہاد نہ چھوڑیں آپ صرف اپنی جان کے مکلف ہیں اپنی جان کے ساتھ میدان میں حاضر ہوجائیں اللہ تعالیٰ کا آپ سے نصرت کا وعدہ ہے اور مومنین کو جہاد کی ترغیب دیتے رہیں اور اس کا ثواب بتاتے رہیں۔ جو ساتھ ہوگا وہ ثواب پائے گا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ ستر سواروں کو لے کر نکلے اور اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی قتال کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے وعدہ فرمایا کہ عنقریب اللہ کافروں کے زور کو روک دے گا، اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ زور والا ہے دنیا میں جب اہل ایمان کی مدد فرمائے تو ان پر کوئی غالب ہونے والا نہیں اور دنیا و آخرت میں وہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے۔ (کافروں کے لیے سخت عذاب ہے)
Top