Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 145
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع) فِي : میں الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ : سب سے نیچے کا درجہ مِنَ : سے النَّارِ : دوزخ وَلَنْ تَجِدَ : اور ہرگز نہ پائے گا لَھُمْ : ان کے لیے نَصِيْرًا : کوئی مددگار
بیشک منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقے میں ہوں اور تو ہرگز ان کے لیے کوئی مددگار نہ پائے گا۔
اس کے بعد منافقین کا عذاب ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اِنَّ الْمُتٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) کہ منافق دوزخ میں سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے۔ صاحب روح المعانی صفحہ 177: ج 5 میں لکھتے ہیں کہ دوزخ کے سات طبقے ہیں پہلے طبقے کا نام جھنم اور دوسرے کا لَظٰی اور تیسرے کا حطمہ اور چوتھے کا سعیر اور پانچویں کا سقر اور چھٹے کا جحیم اور ساتویں ھاویہ ہے اور کبھی کبھی ان سب کے مجموعے کو النار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان طبقات کو درجات اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ متدار کہ ہیں یعنی ایک دوسرے کے نیچے ہیں۔ درک اور درج میں یہ فرق ہے کہ اوپر سے نیچے آئیں تو ہر طبقے درک سے موسوم کرتے ہیں اور نیچے سے اوپر کو جائیں تو ہر طبقے کو درج سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ منافق کو بنسبت دوسرے کافروں کے سخت عذاب اس لیے ہوگا کہ اس نے کفر کے ساتھ مزید اس بات کو اختیار کرلیا کہ اسلام کا مذاق اڑایا اور اہل اسلام کو دھوکہ دیا۔ پھر فرمایا (وَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًا) (کہ اے مخاطب منافقوں کے لیے تو کوئی مددگار نہ پائے گا جو انہیں عذاب سے نکال دے یا ان کا عذاب ہلکا کر دے۔
Top