Anwar-ul-Bayan - Az-Zumar : 19
اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ١ؕ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِۚ
اَفَمَنْ : کیا۔ تو۔ جو ۔ جس حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِ : اس پر كَلِمَةُ : حکم۔ وعید الْعَذَابِ ۭ : عذاب اَفَاَنْتَ : کیا پس۔ تم تُنْقِذُ : بچا لو گے مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں
سو جس شخص کے بارے میں عذاب کی بات طے ہوچکی ہے کیا آپ اسے چھڑالیں گے جو دوزخ میں ہے
(اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ اَفَاَنْتَ تُنقِذُ مَنْ فِی النَّارِ ) (سو کیا جس شخص کے بارے میں عذاب کی بات طے ہوچکی ہے کیا آپ اسے چھڑالیں گے جو دوزخ میں ہو) اس میں رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گمراہی پر جمنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ طے ہے کہ انہیں دوزخ میں جانا ہے اور وہ بھی اپنے بارے میں یہ طے کرچکے ہیں کہ ہمیں ایمان قبول کرنا نہیں وہ دوزخ کی وعیدیں سنتے ہیں لیکن پھر بھی کفر پر جمے ہوئے ہیں کیا آپ انہیں دوزخ سے بچا دیں گے یعنی یہ آپ کا کام نہیں ہے لہٰذا جو شخص ہدایت قبول نہ کرے اس کی وجہ سے آپ غمگین نہ ہوں، اس کے بعد اس بشارت کا تذکرہ فرمایا جس کا (لَھُمُ الْبُشْرٰی) میں وعدہ فرمایا ہے ارشاد ہے (لَکِنْ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ ) لیکن جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنائے ہوئے ہیں ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (وَعْدَ اللّٰہِ ) (یہ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے) (لاَ یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ ) (اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا) پس متقی بندے یقین کریں کہ انہیں جو بشارت دی گئی ہے وہ حق ہے صحیح ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے گا جو لوگ حق واضح ہونے کے بعد بھی ایمان قبول نہیں کرتے ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی دنیا اور دنیاوی منافع سے محبت کرنے کی وجہ سے ایمان سے محروم رہتے ہیں اور جانتے ہوئے کہ ایمان سے محروم رہنے کے باعث جنت سے محروم ہوں گے دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے حق کو قبول نہیں کرتے عارضی دنیا کی چہل پہل ہی کو سامنے رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنْ السَّمَآءِ مَآءً ) اے مخاطب کیا تو نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا پھر اس پانی کو زمین کے سوتوں میں داخل فرما دیا یہ پانی زمین میں جاری رہتا ہے پھر ایک جگہ جمع ہوجاتا ہے پھر چشموں کنوؤں سے نکالا جاتا ہے جس سے کھیتوں کی آبپاشی ہوتی ہے اس کے ذریعہ اللہ زمین سے کھیتیوں کو اگا دیتا ہے ان کھیتیوں کی مختلف قسمیں ہیں، کھیتی بڑھ جاتی ہے، سرسبز ہوتی ہے پکتی ہے پھر خشک ہوجاتی ہے رنگ زرد ہوجاتا ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے کھیتی کا جو حال ہے دنیا کا اٹھان اور فنا اسی طرح سے ہے، ساری دنیا ہی فنا ہوگی قیامت کا صور پھونکا جائے گا تو جو کچھ اس میں ہے تہس نہس ہوجائے گا۔ لوگ بڑے محلات بناتے ہیں قلعے تعمیر کرتے ہیں بڑی آرائش و زیبائش اختیار کرتے ہیں کھیتیاں بوتے ہیں باغ بھی لگاتے ہیں تجارتیں بھی کرتے ہیں نوٹوں کی گڈیوں سے تجوریاں بھرتے ہیں صدارتوں کے امیدوار رہتے ہیں وزیر بن جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت زیادہ کامیاب ہیں لیکن ایک دن موت آہی جاتی ہے سب کچھ دھرا رہ جاتا ہے اور جو کچھ حاصل کیا تھا سب دھوکا کا سامان ہوتا ہے جس کے بارے میں سورة آل عمران میں فرمایا (وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ) (یعنی دنیا والی زندگی دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں) یہ سب کچھ دیکھتے ہیں پھر بھی اس کے پیچھے پڑے ہیں اور حبّ دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت تباہ کر رہے ہیں یہ بیع قابل تعجب ہے اس سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے اسی میں دل دئیے پڑے ہیں حالانکہ دنیا کے حالات میں سب کے لیے بہت بڑی عبرت اور نصیحت ہے اسی کو فرمایا (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُوْلِی الْاَلْبَابِ ) (بلاشبہ اس میں عقل والوں کے لیے ضرور نصیحت ہے) لوگ اپنی عقلوں کو دنیا کی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اپنی آخرت کو قصداً و ارادۃً خراب کرتے ہیں، یہ بےعقلی نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ سورة الکہف میں فرمایا (وَاضْرِبْ لَھُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذَرُوْہُ الرِّیٰحُ وَکَان اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا) اور آپ ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی حالت بیان فرمائیے کہ وہ ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے زمین کی نباتات خوب گنجان ہوگئیں، پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائے جس کو ہوا اڑائے لیے پھرتی ہو اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
Top