Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 78
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں أُمِّيُّوْنَ : ان پڑھ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے الْكِتَابَ : کتاب اِلَّا اَمَانِيَّ : سوائے آرزوئیں وَاِنْ هُمْ : اور نہیں وہ اِلَّا : مگر يَظُنُّوْنَ : گمان سے کام لیتے ہیں
اور ان میں ایسے ہیں جو ان پڑھ ہیں کتاب کا علم نہیں رکھتے۔ سوائے آرزوؤں کے اور وہ لوگ صرف گمانوں میں پڑے ہوئے ہیں
یہودیوں کی جھوٹی آرزوئیں اس آیت میں یہودی جاہل ان پڑھ عوام کا تذکرہ فرمایا ہے یہ لوگ نہ توریت شریف پڑھ سکتے تھے نہ اور کسی طرح کا علم رکھتے تھے البتہ جھوٹی آرزوؤں میں الجھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں جنت میں ضرور جانا ہے اگر عذاب بھی ہوا تو تھوڑے سے دن دوزخ میں رہیں گے اور ہم انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقرب ہیں اس کی اولاد ہیں اور نبوت صرف ہمارے ہی اندر رہ سکتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور بہت سی جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا تھے خیالات کی دنیا میں پڑے ہوئے تھے اور اپنی نجات اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کے خیالی پلاؤ پکا رکھے تھے۔ ان کے خیال میں نہ اللہ کے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کے جھٹلانے سے ان کے محبوب عنداللہ ہونے میں فرق آتا تھا اور نہ سود کھانے سے ان کی دینداری کو بٹہ لگتا تھا نہ کسی طرح کے کسی بھی برے عمل سے ان کو آخرت کا فکر لاحق ہوتا تھا۔ اپنے بارے میں جو جھوٹی آرزوئیں لیے بیٹھے تھے اور جو خوش کن گمانوں کی دنیا بسائے ہوئے تھے اسی میں مست تھے۔
Top