Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم نے ایک جان کو قتل کردیا پھر اس کے بارے میں ایک دوسرے پر ڈالنے لگے اور اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ اسکو ظاہر فرمائے جس کو تم چھپا رہے ہو
مردہ زندہ ہونے کا ایک واقعہ اور قصہ سابقہ کا تکملہ ان آیات میں سابقہ قصہ کا تتمہ بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ذبح بقرہ کا حکم کیوں ہوا تھا۔ ارشاد فرمایا کہ تم نے ایک خون کردیا تھا اور اس خون کو ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے۔ قاتل اقراری نہیں تھا اور ہمیں منظور تھا کہ اس کے قاتل کا لوگوں کو علم ہوجائے لہٰذا ہم نے یہ طریقہ بتایا کہ جو بیل ذبح کیا ہے اس کا ٹکڑا مقتول کی لاش سے لگا دو ۔ تفسیر کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے اس بیل کا ایک ٹکڑا لیکر مقتول کے مونڈھوں کے درمیان لگا دیا چناچہ وہ زندہ ہوگیا اس سے پوچھا کہ تجھے کس نے قتل کیا ہے تو اس نے کہا کہ مجھے میرے بھائی کے بیٹے نے قتل کیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ میرا مال لے لے اور میری بیٹی سے نکاح کرلے۔ یہ بات بیان کر کے وہ شخص دوبارہ مرگیا۔ اور قصاص میں قاتل کو قتل کردیا گیا۔ یہاں یہ سوال اٹھانا بےجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یوں بھی قدرت ہے کہ جس مردہ کو چاہے زندہ فرمائے پھر اس کے لیے بیل کا ذبح ہونا اور مقتول کو اس کے گوشت کا ٹکڑا ماراجانا کیوں مشروط کیا گیا ؟ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو سمجھنا مخلوق کے بس کا کام نہیں۔ اور نہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تکوین اور تشریع میں جو حکمتیں ہیں ان میں سے کوئی سمجھ میں آجاتی ہے کبھی سمجھ میں نہیں آتی۔ مومن بندہ کا کام ماننا اور عمل کرنا ہے۔ ذبح بقرہ سے متعلق ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بنی اسرائیل کی ...... حجت بازی اور کج روی کا حال عام لوگوں کو اور ان کے بعد آنے والی نسلوں کو معلوم ہوجائے تاکہ وہ ایسا نہ کریں۔ اس کے بعد اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا : (کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتیٰ وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ) ” ایسے ہی اللہ تعالیٰ زندہ فرماتا ہے مردوں کو اور دکھاتا ہے تم کو اپنی نشانیاں تاکہ تم عقل سے کام لو۔ موت کے بعد زندہ کرنا اور حساب و کتاب کے لیے قبروں سے اٹھایا جانا قرآن و حدیث میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ اس بات کے تسلیم کرنے سے بہت سے لوگوں کو انکار رہا ہے کہ موت کے بعد زندہ ہوں گے ان کے اشکالات قرآن مجید میں دور کئے گئے ہیں اور بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زندہ کر کے دکھایا ہے ان مواقع میں سے ایک موقعہ یہ بھی تھا کہ مقتول نے بحکم خدا زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادیا اور یہ واقعہ حاضرین کے سامنے ہوا، سب نے دیکھ لیا کہ مردہ زندہ ہوا۔ اور تواتر کے ساتھ یہ قصہ لوگوں تک پہنچ گیا۔ تو اب موت کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ عقلاً بھی یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مردوں کے زندہ کرنے پر قدرت ہے۔ اور بعض مواقع میں حاضرین نے اپنی آنکھوں سے مردوں کو زندہ ہوتا دیکھا ہے، عقل کو کام میں لائیں تو انکار کی کوئی وجہ نہیں۔
Top