Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 254
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے (ایمان والے) اَنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : سے۔ جو رَزَقْنٰكُمْ : ہم نے دیا تمہیں مِّنْ قَبْلِ : سے۔ پہلے اَنْ : کہ يَّاْتِيَ : آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خُلَّةٌ : اور نہ دوستی وَّلَا شَفَاعَةٌ : اور نہ سفارش وَالْكٰفِرُوْنَ : اور کافر (جمع) ھُمُ : وہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے ایمان والو، اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے کہ جس میں نہ بیع ہوگی نہ دوستی اور نہ سفارش اور جو کافر ہیں وہ ظلم کرنے والے ہیں
روز قیامت آنے سے پہلے پہلے اللہ کے لیے خرچ کرلو اس آیت شریفہ میں مال خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے اور لفظ رَزَقْنَاکُمْ میں یہ بتادیا کہ یہ مال ہمارا ہی دیا ہوا ہے جس نے مال دیا اس کو پورا پورا حق ہے کہ مال خرچ کرنے کا حکم فرمائے نیک کاموں میں فرائض واجبات کے مصارف بھی ہیں اور مستحب و نفلی صدقات بھی اور جس طرح بدنی عبادات (نماز روزہ) آخرت کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح مالی عبادات بھی اس کا سبب ہیں۔ صحیح بخاری ص 191 ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اِتَّقُوا النَّار وَلَوْ بَشَقِّ تَمْرَۃٍ ) (دوزخ سے بچو اگرچہ آدھی ہی کھجور کا صدقہ کر دو ) قیامت کا دن بہت سخت ہوگا نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ ایمان اور اعمال صالحہ ہی کام دیں گے۔ اس دن نہ بیع ہوگی، نہ دوستی نہ سفارش، لہٰذا اس دن نجات پانے اور عذاب سے بچنے کے لیے اعمال صالحہ کرتے رہنا چاہئے۔ اعمال صالحہ میں اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ یہ جو فرمایا کہ ” اس دن بیع نہیں ہوگی۔ “ اس کے بارے میں حضرات مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے فدیہ یعنی جان کا بدلہ مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کوئی جان کسی جان کے بدلہ عذاب بھگتنے کے لیے تیار نہیں ہوگی جیسا کہ سورة البقرہ کے چھٹے رکوع میں فرمایا (لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْءًا) اور فدیہ کی صورت میں کیونکہ مبادلہ ہوتا ہے اس لیے اسے بیع سے تعبیر فرمایا۔ اور یہ جو فرمایا وَ لَا خُلَّۃٌاس میں دوستی کی نفی فرمائی مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن دنیا کی کوئی دوستی کسی کو کام نہ دے گی یہاں جو محبتیں ہیں اور دوستی کے مظاہرے ہیں یہ وہاں بالکل نہ رہیں گے بلکہ دوست دشمن ہوجائیں گے۔ کوئی دوست کسی کی مدد نہ کرسکے گا۔ یہ اہل کفر اور اہل فسق کے بارے میں ہے۔ متقی حضرات کی محبتیں باقی رہیں گی جیسا کہ سورة الزخرف میں ارشاد فرمایا : (اَلْاَخِلَّاءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ) (کہ اس دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ سوائے ان لوگوں کے جو صفت تقویٰ سے متصف تھے) ۔ (وَلَا شَفَاعَۃٌ) فرما کر شفاعت یعنی سفارش کی نفی فرما دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کے لیے اس دن کوئی شفاعت نہ ہوگی۔ جیسا کہ سورة المؤمن میں فرمایا : (مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ) (کہ ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا نہ سفارش کرنے والا ہوگا جس کی بات مانی جائے۔ اہل ایمان کے لیے جو شفاعت ہوگی اس میں اس کی نفی نہیں ہے جس کو سفارش کرنے کی اجازت ہوگی وہی سفارش کرسکے گا اور جس کے لیے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی اس کے لیے سفارش ہو سکے گی۔ آیت کے ختم پر فرمایا (وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (کفر کرنے والے ظالم ہی ہیں) انہوں نے معبود حق سے منہ موڑا اور خالق ومالک سے منحرف ہوگئے۔ ایسے لوگوں کی نجات کا کوئی راستہ نہیں۔
Top