Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ
: جائز کردیا گیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
لَيْلَةَ
: رات
الصِّيَامِ
: روزہ
الرَّفَثُ
: بےپردہ ہونا
اِلٰى
: طرف (سے)
نِسَآئِكُمْ
: اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا
ھُنَّ
: وہ
لِبَاسٌ
: لباس
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لِبَاسٌ
: لباس
لَّهُنَّ
: ان کے لیے
عَلِمَ
: جان لیا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنَّكُمْ
: کہ تم
كُنْتُمْ
: تم تھے
تَخْتَانُوْنَ
: خیانت کرتے
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے تئیں
فَتَابَ
: سو معاف کردیا
عَلَيْكُمْ
: تم کو
وَعَفَا
: اور در گزر کی
عَنْكُمْ
: تم سے
فَالْئٰنَ
: پس اب
بَاشِرُوْھُنَّ
: ان سے ملو
وَابْتَغُوْا
: اور طلب کرو
مَا كَتَبَ
: جو لکھ دیا
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَكُلُوْا
: اور کھاؤ
وَاشْرَبُوْا
: اور پیو
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
يَتَبَيَّنَ
: واضح ہوجائے
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْخَيْطُ
: دھاری
الْاَبْيَضُ
: سفید
مِنَ
: سے
لْخَيْطِ
: دھاری
الْاَسْوَدِ
: سیاہ
مِنَ
: سے
الْفَجْرِ
: فجر
ثُمَّ
: پھر
اَتِمُّوا
: تم پورا کرو
الصِّيَامَ
: روزہ
اِلَى
: تک
الَّيْلِ
: رات
وَلَا
: اور نہ
تُبَاشِرُوْھُنَّ
: ان سے ملو
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
عٰكِفُوْنَ
: اعتکاف کرنیوالے
فِي الْمَسٰجِدِ
: مسجدوں میں
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ
: حدیں
اللّٰهِ
: اللہ
فَلَا
: پس نہ
تَقْرَبُوْھَا
: اس کے قریب جاؤ
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اٰيٰتِهٖ
: اپنے حکم
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار ہوجائیں
حلال کیا گیا تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں بیویوں میں مشغول ہونا، وہ لباس ہیں تمہارے لیے اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ نے جان لیا کہ بلاشبہ تم اپنے نفسوں کی خیانت کرتے ہو سو تمہاری توبہ قبول فرمائی اور تم کو معاف فرما دیا۔ سو اب ان سے میل ملاپ کرو، اور تلاش کرو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید تاگہ سیاہ تاگہ سے ممتاز ہو کر ظاہر ہوجائے۔ یعنی فجر کا تاگہ پھر تم روزے پورے کرو رات تک۔ بیویوں میں میل ملاپ نہ کرو اس حال میں کہ تم اعتکاف کئے ہوئے ہو مسجدوں میں۔ یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں لہٰذا ان کے پاس نہ پھٹکو اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے لوگوں کے لیے اپنی آیات تاکہ لوگ پرہیزگار بنیں۔
تکملہ احکام صیام حضرت براء بن عازب ؓ نے بیان فرمایا کہ روزوں کی فرضیت کے ابتدائی زمانہ میں (قانون کے مطابق) رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اس پر عمل کرتے تھے کہ جب کسی شخص کا روزہ ہوتا اور افطارکا وقت آجاتا اور وہ افطار سے پہلے ہوجاتا تو اب پوری رات اور اگلے پورے دن نہیں کھا سکتا تھا جب تک کہ شام نہ ہوجائے۔ اور یہ واقعہ پیش آیا کہ قیس بن صرمہ انصاری ؓ کا روزہ تھا افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے ان سے کہا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے لیکن میں کہیں جا کر تمہارے لیے انتظام کرکے لاتی ہوں۔ انہوں نے دن بھر کام کیا تھا ابھی ان کی بیوی واپس نہ آئی تھی کہ ان کی آنکھ لگ گئی پس جب وہ آئیں اور ان کو دیکھا کہ وہ سو چکے ہیں تو کہنے لگیں ہائے تیری محرومی (کھانے کا وقت ختم ہوا اور کل کو روزہ بھی رکھنا ہے) انہوں نے اسی طرح (بغیر کھائے پیئے) روزہ رکھ لیا جب آدھا دن ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَام الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ ) نازل فرمائی جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور آیت (وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری ص 256 ج 1) قال فی فتح الباری بعد ذکر الاختلاف فی اسم الصحابی الذی وقع لہ ذلک أنہ أبوقیس صرمۃ بن أبی أنس قیس بن مالک فمن قال قیس بن صرمہ قلبہ۔ سو جانے کے بعد رمضان المبارک میں جیسے کھانا پینا ممنوع ہوجاتا تھا اسی طرح بیویوں سے ہمبستر ہونا بھی ممنوع ہوجاتا تھا۔ صحابہ کو اس میں بہت دشواری پیش آئی۔ صحیح بخاری ص 647 ج 2 میں ہے کہ جب رمضان کے روزوں کا حکم ہوا تو (افطار کے بعد نیند آجانے کی صورت میں) عورتوں کے قریب نہ جاتے تھے اور پورے رمضان کا یہی قانون تھا اور بہت سے لوگ اپنے نفسوں کی خیانت کرتے تھے (اور قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھتے تھے) لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ ) نازل فرمائی۔ سنن ابو داؤد (باب کیف الاذان) میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اپنی بیوی سے جماع کرنے کا ارادہ کیا انہوں نے کہا میں تو سو گئی تھی (اب یہ کام جائز نہیں رہا) انہوں نے سمجھا کہ یہ بہانہ کررہی ہے لہٰذا جماع کربیٹھے۔ تفسیر درمنثور ص 197 ج 1 میں ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک مرتبہ رات کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور باتیں کرتے رہے جب گھر آئے تو دیکھا بیوی سو چکی ہے اسے جگایا اور مخصوص کام کا ارادہ کیا وہ کہنے لگی کہ میں تو سو گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تم سوئی نہیں ہو (غلط کہہ رہی ہو) پھر اس سے جماع کرلیا اور کعب بن مالک کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ صبح کو حضرت عمر ؓ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ سنایا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ ) نازل فرمائی۔ نفس کے ابھار کی وجہ سے جو نفسوں کا تقاضا پورا کرلیا اس میں بظاہر نفس کی موافقت ہے لیکن قانون شرعی کی خلاف ورزی کی وجہ سے یہ نفسوں کی خیانت ہے کیونکہ احکام کی خلاف ورزی مواخذہ کی چیز ہے، اور تختانون کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ غلبہ شہوت کی وجہ سے تمہارے نفسوں کا تقاضا بیویوں کے پاس جانے کا ہوتا تھا لیکن تم اجازت شرعی نہ ہونے کی وجہ سے تقاضے کو پورا نہ کرتے تھے اس میں نفسوں کی خواہش کی خیانت اگرچہ ایمانی تقاضوں کی موافقت تھی۔ اب مباشرت کی اجازت دے گئی تو نفسوں کی خیانت بھی ختم ہوئی۔ آیت شریفہ (اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَام الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ ) آخر تک نازل ہونے سے پوری رات کھانا پینا اور بیویوں سے مباشرت کرنا جائز ہوگیا جو کچھ کسی سے خلاف ورزی ہوئی تھی وہ اس پر نادم ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان کو معاف فرما دیا۔ زن و شوہر کے تعلقات کا لطیف انداز میں بیان : رمضان المبارک کی راتوں میں بیویوں سے مباشرت کی اجازت دیتے ہوئے میاں بیوی کے تعلق کو ایک لطیف انداز میں بیان فرمایا۔ اور وہ یہ کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں یعنی وہ تمہارے لیے سکون اور دل جمعی کا باعث ہیں اور تم ان کے لیے سکون اور دل جمعی کا باعث ہو۔ کما فی سورة الاعراف (لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا و فی سورة الروم لِتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا) عورت اور مرد چونکہ معانقہ کرتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے لپٹ جاتا ہے۔ اس لیے ہر ایک کو ایک دوسرے کے لیے لباس سے تعبیر فرمایا اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے پردہ بن جاتے ہیں اور فسق و فجور سے روکتے ہیں۔ اس لیے بھی ہر ایک کو دوسرے کا لباس بتایا۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب کسی بندہ نے نکاح کرلیا تو اس نے آدھا دین کامل کرلیا۔ لہٰذا وہ باقی آدھے دین کے بارے میں اللہ سے ڈرے۔ (مشکوٰۃ البیہقی فی شعب الایمان) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں پہلے جملہ یعنی (ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ ) سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ تم عورتوں سے صبر نہیں کرسکتے اور دوسرا جملہ (وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ) یہ بتارہا ہے کہ تمہارے لیے ان سے پرہیز کرنا مشکل ہے اور چونکہ مرد کا احتیاج خوب واضح ہے اس لیے پہلے جملے کو مقدم کیا گیا۔ (من روح المعانی ص 165 ج 1) ابتغائے اولاد کا حکم : یہ جو فرمایا (وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ) (یعنی طلب کرو تم جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے اولاد طلب کرنا مقصود ہے یعنی جماع کرنے میں نیت رکھو کہ اللہ تعالیٰ اولاد نصیب فرمائے گا۔ صاحب روح المعانی ص 65 ج 2 لکھتے ہیں کہ اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ نکاح کرنے میں نسل بڑھنے کی نیت رکھنی چاہئے صرف قضائے شہوت مقصود نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شہوت جماع کو بنی نوع انسان کی بقا کے لیے انسانوں میں رکھ دیا ہے۔ جیسا کہ کھانے کی خواہش انسانوں کے زندہ رہنے کے لیے پیدا فرما دی ہے صرف قضائے شہوت جانوروں کا مقصود ہے بعض مفسرین نے یہ بھی فرمایا کہ جب جماع کو اولاد طلب کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا تو اس سے عورتوں سے غیر فطری طریقے سے قضاء شہوت کرنے کی ممانعت ثابت ہوگئی کیونکہ وہ جگہ طلب ولد کی نہیں ہے۔ صبح صادق تک کھانے پینے کی اجازت : پھر فرمایا (وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) اور کھاؤ اور پیؤ یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید تاگہ سیاہ تاگہ سے ممتاز ہو کر ظاہر ہوجائے (فخر کا تاگہ) اس میں اجازت دی گئی ہے کہ روزوں کی راتوں میں صبح صادق ہونے تک کھا پی سکتے ہو۔ سفید تاگے سے بیاض النہار (یعنی دن کی سفیدی جو صبح صادق سے شروع ہوتی ہے) مراد ہے۔ اور سیاہ تاگے سے سوا داللیل (یعنی رات کی تاریکی) مراد ہے۔ یہ تفسیر خود آنحضرت سرور عالم ﷺ سے مروی ہے۔ (کمافی صحیح البخاری ص 357 ج 1) حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ جب آیت (وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ) نازل ہوئی اور ابھی لفظ من الفجر نازل نہ ہوا تھا تو بعض لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور کالا تاگہ باندھ لیا اور برابر کھاتے رہے یہاں تک کہ ان دونوں میں فرق ظاہر ہوجائے (وہ زمانہ بتی اور بجلی کا تو تھا نہیں چھوٹے چھوٹے گھروں میں اندر بیٹھ کر کھاتے رہے صبح صادق ہوجانے اور باہر روشنی پھیل جانے پر بھی دونوں تاگوں میں امتیاز نہ ہوا۔ (ان حضرات نے خَیْطِ اَبْیَضْ اور خَیْطِ اَسْوَدْ کا معروف معنی سمجھا) پھر اللہ تعالیٰ نے لفظ من الفجر نازل فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ خیط ابیض اور خیط اسود سے دن اور رات مراد ہے۔ (صحیح بخاری ص 287 ج 1) معلوم ہوا کہ سحری کھانے کا آخری وقت صبح صادق تک ہے اور چونکہ پوری رات میں جماع کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی اس لیے جماع بھی صبح صادق ہونے تک جائز ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جنابت روزہ کے منافی نہیں ہے کیونکہ جب رات کے آخر حصے تک جماع کرنے کی اجازت ہے تو جماع کرنے والا لامحالہ فجر طلوع ہونے کے بعد ہی غسل کرے گا اور غسل کرنے میں جو وقت خرچ ہوگا اس وقت میں روزہ بھی ہوگا جو صبح صادق سے شروع ہوچکا ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کو حالت جنابت میں فجر ہوجاتی تھی۔ پھر آپ روزہ رکھ لیتے تھے اور یہ جنابت احتلام کی نہیں بلکہ جماع کی وجہ سے ہوتی تھی۔ (صحیح بخاری ص 258 ج 1) چونکہ جنابت روزہ کے منافی نہیں ہے اس لیے اگر روزہ میں احتلام ہوجائے تو اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ روزہ کا ابتدائی وقت ( یَتَبَیَّنَ لَکُمُ ) میں بتادیا پھر روزے کی انتہا بتانے کے لیے فرمایا : (ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ) (پھر روزوں کو رات تک پورا کرو) رات غروب شمس ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہے جیسے ہی سورج غروب ہوجائے روزہ افطار کرنے کا وقت ہوجاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مشرق کی طرف سے رات آگئی اور دن مغرب کی طرف چلا گیا اور سورج چھپ گیا تو روزہ دار کے افطار کا وقت ہوگیا۔ (صحیح بخاری ص 262 ج 1) مسئلہ : غروب ہوتے ہی فوراً روزہ افطار کرلینا مستحب ہے جیسا کہ سحری کھانا آخر رات میں مستحب ہے۔ (کمافی صحیح مسلم ص 351 ج 1) البتہ سحری میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ صبح صادق ہونے کا اندیشہ ہوجائے۔ اعتکاف کے فضائل اور مسائل : پھر فرمایا (وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ ) (اور بیویوں سے میل ملاپ نہ کرو اس حال میں کہ تم اعتکاف کیے ہوئے ہو مسجدوں میں) اعتکاف مسنون ہے جو صرف مسجدوں ہی میں ہوتا ہے اور اس کے لیے نیت کرنا بھی ضروری ہے۔ اعتکاف کی نیت کے بغیرمسجد میں جتنا بھی وقت گزارے اعتکاف میں شمار نہ ہوگا۔ اعتکاف کے دنوں میں ایک تو شب قدر میں بیدار رہنے اور نمازوں میں قیام کرنے کی آسانی ہوجاتی ہے۔ دوسرے مخلوق سے تعلق کم سے کم ہوجاتا ہے۔ اور خالق تعالیٰ شانہ ہی کی طرف پوری توجہ رہتی ہے۔ دل و جان سے جسم اور زبان سے عبادت اور تلاوت میں مشغولیت رہتی ہے۔ یہ در پر جا پڑنے والی بات ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (صحیح بخاری ص 274 ج 1) حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے پھر ایک سال کا اعتکاف نہیں کیا تو آئندہ سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (سنن ابو داؤد ص 334 ج 1) اور ایک سال آپ نے ماہ شوال میں بھی بیس دن کا کا اعتکاف فرمایا۔ ( ایضاً ) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعتکاف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ گناہوں سے روکتا ہے اور اس کے لیے اس شخص کا ثواب لکھا جاتا ہے جو تمام نیکیاں کرنے والا ہو۔ (سنن ابن ماجہ ص 127) رات ہو یا دن اعتکاف میں جماع کرنا یا شہوت کے ساتھ بیوی کو چھونا جائز نہیں ہے۔ اگر جماع کرلیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا اگر شہوت کے بغیر ہاتھ لگایا تو اس کی گنجائش ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ حالت اعتکاف میں ( مسجد میں بیٹھے ہوئے) اپنا سر مبارک میری طرف کو نکال دیتے تھے اور میں آپ کا سر دھو دیتی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کے سر میں کنگھی کردیتی تھی۔ (صحیح بخاری ص 272 ج 1) اور حضرت عائشہ ؓ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ آپ اعتکاف کی حالت میں صرف انسانی حاجت کے لیے گھر میں داخل ہوتے تھے۔ (صحیح بخاری 272 ج 1) حاجت انسانی سے پیشاب پاخانہ مراد ہے۔ کھانا پینا چونکہ مسجد ہی میں ہوتا ہے اس لیے معتکف کو اس کے لیے مسجد سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب کوئی شخص اعتکاف کرے گا اور راتوں میں بیدار رہے گا تو جس رات میں بھی شب قدر ہوگی وہ اسے پالے گا اور اس کی خیرو برکت سے محرومی نہ ہوگی۔ قرآن شریف میں فرمایا (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ ) (کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے) لہٰذا شب قدر کی تلاش میں رہنا چاہیے اور خاص کر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اسے تلاش کریں ہزار مہینے کے 83 سال چند ماہ ہوتے ہیں چند گھنٹے عبادت میں گزار کر اتنا بڑا ثواب لے لینا عظیم نفع ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (وَ لا یحرم خَیْرَھا الاّ کل محروم) (یعنی شب قدر کی خیر سے وہی محروم رہے گا جو پورا محروم ہے) (جسے ذرا بھی عبادت کا ذوق نہیں) (مشکوٰۃ المصابیح ص 173 ج 1) ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی امید رکھتے ہوئے شب قدر کی رات میں نماز میں قیام کیا (یعنی نفل نمازیں پڑھتا رہا) اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری ص 701 ج 1) نفل روزوں کا بیان : گزشتہ آیت میں جو فرمایا (فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ ) اس میں نوافل کی ترغیب دی ہے بیان تو روزوں کے ذیل میں آتا ہے لیکن الفاظ کے عموم میں ہر نفلی عبادت آگئی ہے۔ یہاں نفل نمازوں کے کچھ فضائل لکھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا کریم ہے ہر نیکی کم از کم دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ شش عید کے روزے : حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد چھ روزے شوال کے مہینے میں رکھ لیے تو (پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ہوگا اگر ہمیشہ ایسا کرے گا تو) گویا اس نے ساری عمر روزے رکھے۔ (رواہ مسلم ص 369 ج 1) جب کسی نے رمضان کے تیس روزے رکھے اور پھر چھ روزے اور رکھ لیے تو یہ چھتیس روزے رکھنے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین سو ساٹھ روزے شمار ہوں گے اس طرح سے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔ اگر کوئی شخص ہر سال ایسا ہی کرلیا کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے ساری عمر روزہ رکھنے والا شمار ہوگا اگر رمضان کے روزے چاند کی وجہ سے 29 ہی رہ جائیں تب بھی شوال میں چھ روزے رکھنے سے انشاء اللہ مذکورہ بالا ثواب ملے گا کیونکہ ہر مسلمان کی نیت یہی ہوتی ہے کہ چاند نظر نہ آیا تو تیسواں روزہ بھی ضرور رکھے گا۔ پیر اور جمعرات کا روزہ : پیر اور جمعرات کو بھی روزہ رکھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پیر اور جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اعمال پیش ہوتے ہیں لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (رواہ الترمذی ص 131 ج 1) ایام بیض کے روزے : ایام بیض کے روزے رکھنے کی بھی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ 13۔ 14۔ 15 کو ایام بیض کہا جاتا ہے حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تو مہینے سے تین روزے رکھے تو تیرہ چودہ، پندرہ تاریخ کے روزے رکھ لے۔ (رواہ الترمذی ص 133 ج 1) نیز رسول اللہ ﷺ ایام ابیض کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے تھے۔ (رواہ النسائی ص 329 ج 1) عاشوراء کا روزہ : صحیح بخاری (ص 268 ج 1) میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ جاہلیت کے زمانہ میں قریش عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو عاشورا کا روزہ (بحیثیت تاکیدی حکم کے) باقی نہ رہا پھر جو چاہتا اس دن کا روزہ رکھتا تھا اور جو چاہتا چھوڑ دیتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یوم عاشورا کا روزہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے مشروع تھا اور اس کا روزہ رکھنا مؤکد تھا۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد تأکد ختم ہوگیا اور استحباب کا درجہ رہ گیا۔ صحیح مسلم (ص 367 ج 1) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے پوری پوری امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ (بقر عید کی نویں تاریخ) کا روزہ رکھنے پر ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور یوم عاشورا کے روزہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوری امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کے گناہوں کا کفارہ فرما دے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ارشاد فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ رمضان کے بعد سے زیادہ افضل محرم (یعنی اس کی دس تاریخ) کا روزہ ہے جو شہر اللہ ہے اور سب نمازوں میں فرض نمازوں کے بعد رات کی نماز (یعنی نماز تہجد افضل ہے۔ (صحیح مسلم ص 355 ج 1) قال الطیبی أراد بصیام شھر اللّٰہ صیام یوم عاشوراء اھ ویکون من باب ذکر الکل وارادۃ البعض ویمکن أن یقال أفضلیتہ لما فیہ من یوم عاشوراء و لکن الظاھر أن المراد جمیع شھر المحرم۔ (کذا فی المرقاۃ) محرم کو شہر اللہ یعنی اللہ کا مہینہ فرمایا۔ یہ اضافت تشریفی ہے۔ کیونکہ سب مہینے اللہ ہی کی ہیں۔ محرم الحرام کی فضیلت بتانے کے لیے شہر اللہ فرمایا حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔ (سنن الترمذی ص 122 ج 1) اور شیخ ابن ہمام نے فرمایا کہ دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھے۔ صرف یوم عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔ (ذکرہ فی المرقاۃ) عشرہ ذی الحجہ کے روزے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزہ کی فضیلت اوپر معلوم ہوئی۔ اس سے پہلے جو آٹھ دن ہیں ان میں بھی روزہ رکھنا چاہیے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذوالحجہ کے اول کے دس دنوں میں عمل صالح سب دنوں کے اعمال سے افضل ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا اور جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ فرمایا (ہاں) جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ الایہ کہ کوئی شخص اللہ کی راہ میں نکلا (اور اس نے جان اور مال کی بازی لگا دی) پھر کچھ بھی لے کر واپس نہ ہوا۔ (صحیح بخاری ص 132 ج 1) ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عاشورا کا روزہ اور ذوالحجہ کے عشرہ اولیٰ کے روزے (باستثناء یوم الاضحی) اور مہینے کے تین روزے نہیں چھوڑتے تھے۔ (سنن نسائی ص 228 ج 1) فائدہ : بقر عید کی نویں تاریخ کو حج ہوتا ہے اس دن حج کرنے والے عرفات میں ہوتے ہیں۔ ظہر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک دعاؤں میں مشغولیت ہوتی ہے اس لیے حجاج کے لیے افضل ہے کہ اس تاریخ کا روزہ نہ رکھیں۔ حضور اقدس ﷺ نے بھی حج کے موقع پر اس دن روزہ نہیں رکھا تھا۔ (کما فی صحیح البخاری ص 267 ج 1، صحیح مسلم ص 397 ج 1) فائدہ : نفل عبادت روزہ ہو یا نماز، ذکر ہو یا تلاوت، حج ہو یا عمرہ جس قدر بھی کوئی شخص ادا کرے گا اس کا ثواب پائے گا۔ لیکن ہر عمل میں شریعت کے اصول و قوانین کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ایک نفلی روزہ کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے فی سبیل اللہ ایک روزہ رکھ لیا اللہ تعالیٰ اس کی ذات کو دوزخ سے اتنی دور کردیں گے جتنی دور کوئی شخص ستر سال میں چل کر پہنچے۔ (یعنی وہ دوزخ میں نہ جائے گا) ۔ (صحیح بخاری ص 398 ج 1) لفظ فی سبیل اللہ کا قابل غور معنی تو یہ ہے کہ جہاد کے موقعہ پر روزہ رکھنے کی یہ فضیلت ہے اور اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب الجہاد میں ذکر کیا ہے اور بعض شراح حدیث نے اس کا ترجمہ لوجہ اللہ بھی کیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کی رضا کے لیے روزہ رکھے۔ اس کا یہ ثواب ہے۔ فتح الباری (ص 48 ج 2) میں دونوں معنی لکھے ہیں۔ نفل روزہ بقدر طاقت (جس سے دوسری فرض عبادتوں میں ضعف نہ آجائے اور اپنے لیے اور اہل و عیال کے لیے ضروری حلال کسب معاش میں فرق نہ آئے) رکھتے رہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اور راتوں رات نفل نماز میں قیام کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ایسا نہ کرو روزہ بھی رکھو اور بےروزہ بھی رہو اور رات کو نماز میں بھی قیام کرو اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے پاس آنے جانے والوں کا بھی تم پر حق ہے۔ اور فرمایا کہ سب سے افضل روزہ داؤد (علیہ السلام) کا روزہ ہے ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن بےروزہ رہتے تھے۔ (صحیح البخاری ص 265 ج 1) سال بھر میں پانچ دن ایسے ہیں جن میں روزہ رکھنا حرام ہے : پانچ دن پورے سال میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ وہ پانچ دن یہ ہیں عید الفطر کا دن اور ذی الحجہ کی 10۔ 11۔ 12۔ 13 تاریخوں میں۔ ذوالحجہ کی ان تاریخوں کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔ (رواہ المسلم ص 250 ج 1) بخاری ص 267 ج 1 میں حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، ذکر اللہ میں تو ہمیشہ ہی مشغول رہنا چاہیے۔ لیکن ایام تشریق میں خصوصیت کے ساتھ ذکر اللہ کا اہتمام کیا جائے۔ مسئلہ : جس عورت کا شوہر گھر پر موجود ہو وہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزے نہ رکھے البتہ فرض روزوں میں شوہر کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ وہ منع بھی کرے تب بھی رکھے۔ کیونکہ اللہ کے فرائض سب کے حقوق سے مقدم ہیں۔ روزانہ نفلی روزہ رکھنا محمود نہیں : فائدہ : بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ روزانہ روزہ رکھتے ہیں روزانہ روزہ رکھنا محمود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے لا صام من صام الابد (یعنی جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزے رکھے ہی نہیں) ۔ (صحیح بخاری ص 265 ج 1) اور آپ نے روزانہ روزہ رکھنے والے کے لیے یہ بھی فرمایا کہ لا صام ولا افطر کہ اس نے نہ روزے رکھے نہ بےروزہ رہا (صحیح مسلم ص 267 ج 1) اور وجہ اس کی یہ ہے کہ روزانہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہوجاتی ہے۔ صرف کھانے پینے کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ افضل الصیام : سب سے افضل روزہ یہ ہے کہ ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن بےروزہ رہے حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی طرح نفلی روزے رکھتے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا لا صوم فوق صوم داؤد (صحیح بخاری ص 765 ج 1) (یعنی داؤد (علیہ السلام) کے روزہ سے بڑھ کر کوئی روزہ نہیں) اور ایک روایت ہے۔ لا افضل من ذلک (بخاری ص 765 ج 1) یعنی اس روزے سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔ حدود اللہ سے آگے بڑھنے کی ممانعت : آخر میں فرمایا (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا) (الایۃ) (یعنی یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں لہٰذا ان کے پاس نہ پھٹکو۔ گزشتہ آیات میں جو روزہ کی فرضیت اور مریض و مسافر کے لیے رخصت اور روزہ کی ابتداء اور انتہاء کے اوقات بیان ہوئے اور اعتکاف والوں کے لیے ارشاد ہوا کہ اعتکاف میں مباشرت نہ کریں ان سب کے بیان کرنے کے بعد ارشاد ہے کہ یہ احکام اللہ کی حد بندیاں ہیں۔ حدود سے آگے مت بڑھو جو حکم جس طرح ہوا ہے اس کو اسی طرح پورا کرو اور ایسی صورت کے قریب جانے کی ممانعت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے روزہ ضائع ہوجائے۔ نہ سحری میں اتنی دیر کریں کہ صبح صادق ہوجائے۔ نہ افطار میں اتنی جلدی کریں کہ سورج چھپنے سے پہلے ہی کھا کے فارغ ہوجائیں حالت روزہ میں منہ میں ایسی کوئی چیز نہ لیں جس کے اندر جانے کا اندیشہ ہو اور وضو کرتے وقت ناک میں پانی دینے میں مبالغہ نہ کریں (کما فی الحدیث و بالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما۔ رواہ ابوداود) روزے میں مسواک کرنا تو احادیث شریفہ سے ثابت ہے لیکن دوسری چیزوں سے روزے میں دانت صاف کرنے کو فقہاء نے اسی لیے مکروہ لکھا ہے کہ تھوڑا بہت اندر چلے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
Top