Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١٘ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
شَهْرُ : مہینہ رَمَضَانَ : رمضان الَّذِيْٓ : جس اُنْزِلَ : نازل کیا گیا فِيْهِ : اس میں الْقُرْاٰنُ : قرآن ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ بَيِّنٰتٍ : اور روشن دلیلیں مِّنَ : سے الْهُدٰى : ہدایت وَالْفُرْقَانِ : اور فرقان فَمَنْ : پس جو شَهِدَ : پائے مِنْكُمُ : تم میں سے الشَّهْرَ : مہینہ فَلْيَصُمْهُ : چاہیے کہ روزے رکھے وَمَنْ : اور جو كَانَ : ہو مَرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی پوری کرے مِّنْ : سے اَيَّامٍ اُخَرَ : بعد کے دن يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُمُ : تمہارے لیے الْيُسْرَ : آسانی وَلَا يُرِيْدُ : اور نہیں چاہتا بِكُمُ : تمہارے لیے الْعُسْرَ : تنگی وَلِتُكْمِلُوا : اور تاکہ تم پوری کرو الْعِدَّةَ : گنتی وَلِتُكَبِّرُوا : اور اگر تم بڑائی کرو اللّٰهَ : اللہ عَلٰي : پر مَا ھَدٰىكُمْ : جو تمہیں ہدایت دی وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر کرو
رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کے بارے میں اس کے بیانات خوب واضح ہیں اور حق و باطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے والے ہیں سو جو شخص تم میں سے اس ماہ میں موجود ہے وہ اس میں روزہ رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں کی گنتی کر کے روزے رکھ لے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی کا ارادہ فرماتا ہے۔ دشواری کا ارادہ نہیں فرماتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو۔ اور تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل کیا گیا اس آیت شریفہ میں ان دنوں کی تعیین فرما دی گئی جن میں روزہ رکھنا فرض ہے۔ پہلی آیت میں (اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ) فرمایا اور اس آیت میں ماہ رمضان کا صاف نام لے کر بیان فرما دیا کہ جو شخص اس ماہ میں موجود ہو وہ روزے رکھے اور ساتھ ہی رمضان المبارک کی ایک دوسری فضیلت بھی بیان فرما دی اور وہ یہ کہ اس ماہ میں قرآن مجید نازل ہوا۔ اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید ماہ رمضان میں نازل کیا گیا اور سورة قدر میں فرمایا کہ لیلۃ القدر میں نازل فرمایا۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ لیلہ القدر رمضان المبارک میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ قرآن مجید تو تھوڑا تھوڑا کر کے تئیس سال میں نازل ہوا۔ پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شب قدر میں لوح محفوظ سے پورا قرآن جملۃ واحدۃ (اکٹھا) آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور بیت العزت میں رکھ دیا گیا۔ پھر وہاں سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھوڑا تھوڑا حسب الحکم لاتے رہے۔ (تفسیر قرطبی ج 2 ص 292) قرآن کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کے بارے میں واضح بیانات ہیں اور وہ حق اور باطل میں فرق کرنیوالا ہے۔ قرآن کی یہ صفت ظاہر باہر واضح ہے دوست دشمن سب پر عیاں ہے۔ یہ جو فرمایا (فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ) اس میں ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد عورت پر رمضان کے روزوں کی فرضیت کی تصریح فرمادی۔ البتہ مسافر اور مریض اور حمل والی عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو اجازت دی گئی کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھیں اور بعد میں اس کی قضاء رکھ لیں۔ اور حیض و نفاس والی عورت کو حکم ہے کہ وہ رمضان میں روزے نہ رکھیں اور بعد میں رکھ لیں۔ ان مسائل کی تفصیلات حدیث اور فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ جن میں سے بعض مسائل انشاء اللہ ابھی نقل کریں گے۔ دنیا میں جب سے سلسلہ مواصلات کی آسانی ہوگئی ہے اور تیز رفتار طیارے گھنٹوں میں مہینوں کی مسافت پر پہنچا دیتے ہیں اس وقت سے یہ سوال سامنے آنے لگا کہ کوئی شخص کسی ملک میں تھا وہاں اس نے تیس روزے رکھ لیے پھر وہ کسی ایسے ملک میں پہنچ گیا جہاں ایک دو دن ابھی رمضان کے ختم ہونے میں باقی ہیں تو وہ ان دنوں میں کیا کرے۔ احقر کے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ جہاں پہنچا ہے وہاں چونکہ رمضان موجود ہے اس لیے ان دنوں کے روزے رکھے۔ آیت (فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ) کا عموم اسی کو متقاضی ہے اور فقہاء نے یہ جو لکھا ہے کہ رمضان کے دن میں بےروزہ نابالغ، بالغ ہوجائے یا کوئی حیض والی عورت پاک ہوجائے تو وہ رمضان کے احترام میں شام تک نہ کھائے پیئے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی ایسے علاقہ میں پہنچ گیا جہاں ابھی رمضان باقی ہے وہ رمضان کا احترام کرے احترام کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ روزہ نہ رکھے اور کھائے پیئے بھی نہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ روزہ سے رہے۔ اور یہ روزہ رکھنا آیت کے عموم کے مطابق ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو روزہ ہی رکھنا چاہئے۔ مطلق نیت صوم سے روزہ رکھ لینا چاہئے۔ مطلق نیت سے نفل روزہ ادا ہوجاتا ہے اور رمضان کا فرض روزہ بھی۔ لہٰذا اگر مطلق روزہ کی نیت کرلی اور خدائے تعالیٰ کے نزدیک ان دنوں کے روزے فرض ہوئے تو فرض ادا ہوجائے گا۔ ورنہ نفل کا ثواب مل جائے گا اور رمضان کا احترام بھی ہوجائے گا۔ مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت اور بعد میں قضا رکھنے کا حکم : یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ ” جو شخص ماہ رمضان میں موجود ہو اس کے روزے رکھے “ مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جتنے دنوں کے روزے رمضان المبارک میں مسافر اور مریض نے نہیں رکھے وہ رمضان کے بعد دوسرے دنوں میں اتنی ہی گنتی کرکے جتنے روزے چھوٹے ان کی قضاء رکھ لے۔ علامہ جصاص فرماتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً اتنے دنوں کی گنتی کرکے قضا کرنے کا حکم فرمایا ہے جتنے دن کے روزے رہ گئے ہیں اور لگاتار قضاء رکھنے کی کوئی قید اور شرط نہیں لگائی اس لیے روزوں کی قضا کرنے والامتفرق طور پر رکھ لے یا لگاتار رکھ لے دنوں طرح درست ہے۔ اور (یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ ) سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ (ج 1 ص 208) فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دوسرا رمضان آنے تک پہلے رمضان کے قضا روزے نہ رکھے تو اب اس موجود رمضان کے روزے رکھ لے اور گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا بعد میں کرلے البتہ جلد سے جلد قضا رکھ لینا بہتر ہے اس میں مسارعت الی الخیر ہے اور چونکہ موت کا کچھ پتہ نہیں اس لیے ادائیگی فرض کا اہتمام بھی ہے۔ مسئلہ : ہر مریض کو اجازت نہیں ہے کہ بعد میں قضا رکھنے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑے بلکہ یہ رخصت و اجازت ایسے مریض کو دی ہے جس کو روزہ رکھنے سے سخت تکلیف میں مبتلا ہونے یا کسی عضو کے تلف ہونے کا قوی اندیشہ ہو، یا ایسے مرض میں مبتلاہو جس میں روزے رکھنے کی وجہ سے مرض کے طول پکڑ جانے کا غالب گمان ہو جو تجربہ سے یا ماہر مسلم معالج کے قول کی بنیاد پر ہو اور یہ ماہر مسلم معالج ایسا ہو جس کا فاسق ہونا معلوم نہ ہو۔ قال فی الدر المختار او مریض خاف الزیادۃ لمرضہ و صحیح خاف المرض بغلبۃ الظن بأمارۃ أوبتجربۃ أوباخبار طبیب حاذق مسلم مستور اھ و فی الشامی أما الکافر فلا یعتمد علی قولہ لاحتمال أن غرضہ افساد العبادۃ (فصل فی العوارض) اس بارے میں لوگ غلطی کرتے ہیں کہ معمولی سے مرض میں روزہ چھوڑ دیتے ہیں گو اس کے لیے روزہ مضر بھی نہ ہو۔ بلکہ بعض امراض میں روزہ مفید ہوتا ہے پھر بھی مرض کا بہانہ بنا کر روزہ نہیں رکھتے اور بہت سے لوگ ڈاکٹروں کے کہہ دینے سے روزہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس بارے میں ہر ڈاکٹر کا قول معتبر نہیں ڈاکٹر بےدین فاسق بلکہ کافر بھی ہوتے ہیں۔ انہیں نہ مسئلہ کا علم ہوتا ہے نہ روزہ کی قیمت جانتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو تو خواہ مخواہ روزہ چھڑوانے میں مزہ آتا ہے اور کافر ڈاکٹر کا قول تو اس بارے میں بالکل ہی معتبر نہیں۔ مریض کو اپنے تجربہ اور اپنی ایمانی صوابدید سے اور کسی ایسے معالج سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہئے جو مسلمان ہو روزے کی اہمیت سمجھتا ہو اور خوف خدا رکھتا ہے اور مسئلہ شرعیہ سے واقف ہو۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر رکھتے ہی نہیں اور بہت بڑی گنہگاری کا بوجھ لے کر قبر میں چلے جاتے ہیں۔ کھانے پینے کی محبت اور آخرت کی بےفکری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ یہ ان مریضوں کا بیان ہوا جو عموماً تندرست رہتے ہیں اور عارضی طور پر مریض ہوگئے۔ یہ لوگ صحت یاب ہو کر بعد میں قضاء رکھ لیں۔ لیکن ایسا مرد یا عورت جو مستقل مریض ہو جسے روزہ رکھ سکنے کی زندگی بھر امید نہ ہو۔ اور ایسے مرد یا عورت جو بہت بوڑھے ہوں، نہ اب روزہ رکھنے کی طاقت ہے نہ پھر کبھی روزہ رکھ سکنے کی امید ہے تو یہ لوگ روزوں کے بجائے فدیہ دیں۔ لیکن اگر کبھی بعد میں روزہ رکھنے کے قابل ہوگئے تو روزہ رکھنا فرض ہوگا اور فدیہ جو دیا ہے نفلی صدقہ ہوجائے گا۔ جس طرح کہ ہر مریض کو روزہ چھوڑ نے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح ہر مسافر کو بھی روزہ چھوڑ نے کی اجازت نہیں۔ رمضان المبارک کا روزہ بعد میں قضا رکھنے کی نیت سے اس مسافر کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے جو مسافت قصر کے ارادہ سے اپنے شہر یا بستی سے نکلا ہو۔ جب تک سفر میں رہے گا مرد ہو یا عورت اسے رمضان کا روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ جب گھر آجائے تو روزوں کی قضا کرلے۔ ہاں اگر سفر میں کسی جگہ پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو اب شرعاً مسافت کے حکم میں نہیں رہا۔ ان دنوں میں رمضان المبارک ہو تو روزہ رکھنا فرض ہوگا اور نماز میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔ مسافر قصر 48 میل ہے (کلو میٹر کا حساب کرلیا جائے) اتنی مسافت کے لیے خواہ پیدل سفر کرے یا بس سے یا ہوائی جہاز سے شرعی مسافر مانا جائے گا۔ وہ نمازوں میں قصر بھی کرے اور اسے یہ بھی جائز ہے کہ رمضان شریف کے روزے نہ رکھے اور بعد میں گھر آجائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا رکھ لے۔ جو شخص مسافت قصر سے کم سفر کے لیے گیا ہو اسے روزہ چھوڑ ناجائز نہیں ہے۔ شرعی مسافر کو (جس کی مسافت سفر اوپر بتادی گئی ہے) سفر میں روزہ چھوڑ نے کی اجازت تو ہے لیکن رمضان میں روزہ رکھ لینا بہتر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اول تو رمضان کی برکت اور نورانیت سے محرومی نہ ہوگی۔ دوسرے سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر روزہ رکھنے میں آسانی ہوگی اور بعد میں تنہا روزہ رکھنا مشکل ہے۔ مسئلہ : مسافر اور مریض (جنہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے) وہ اگر اپنے زمانہ عذر ہی میں مرگئے۔ تو چونکہ انہوں نے قضاء رکھنے کا وقت ہی نہیں پایا اس لیے ان پر اپنے چھوٹے ہوئے روزوں طرف سے فدیہ دینے کی وصیت کرنا واجب نہیں۔ اور اگر مریض نے اچھا ہو کر اور مسافر نے گھر آکر روزے نہیں رکھے یا کچھ رکھے اور کچھ نہ رکھے۔ تو جتنے دن مرض اور سفر کے بعد پائے ہیں ان کی طرف فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا واجب ہے۔ وصیت کے بعد اس کا ولی قرضوں کی ادائیگی کے بعد اس کے تہائی مال سے ہر روزہ کے عوض بقدر صدقہ فطر کے صدقہ کر دے اور اگر اس نے وصیت نہ کی اور اس کے ولی نے اپنی خوشی سے اپنے ذاتی مال سے اس کی طرف سے فدیہ دے دیا تو انشاء اللہ یہ بھی مفید ہوگا۔ مثلاً اگر دس دن کے روزے چھوڑے تھے اور اسی قدر ایام صحت اور ایام اقامت پا لیے اور قضا روزے نہ رکھے اور موت آنے لگی تو پورے دس دن کے روزوں کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرے۔ اور اگر ایام صحت اور ایام اقامت میں صرف پانچ دن ملے تھے اور ان میں قضا روزے نہ رکھے تو صرف پانچ دن کے روزوں کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرے۔ (من الدر المختار) حاملہ اور مرضعہ کے لیے رخصت : سنن نسائی ص 318 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے اور اس کی نماز کا ایک حصہ معاف فرما دیا ہے (کہ چار رکعات والی فرض نماز کی دو رکعتیں مسافر کے ذمہ رہ جاتی ہیں) اور دودھ پلانے والی عورت اور حمل والی عورت کو بھی رمضان میں روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ نہ رکھیں اور بعد میں ان روزوں کی قضا رکھ لیں ...... جس حاملہ کو روزہ رکھنے سے تکلیف ہوتی ہو یا زیادہ تکلیف میں پڑجانے یا اپنی جان یا بچے کی جان کا اندیشہ ہو تو وہ عورت رمضان کے روزے چھوڑ کر بعد میں رکھ لے اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے لیے بھی اسی وقت رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنا جائز ہے جبکہ روزہ رکھنے سے بچے کو دودھ سے محرومی ہوتی ہو اور بچہ دودھ پلانے والی کے دودھ کے علاوہ دوسری غذا کے ذریعہ گزارہ نہ کرسکتا ہو اوپر کا دودھ پلانے سے (جیسا کہ آج کل رواج ہے) یا دلیہ یا چاول وغیرہ کھانے سے بچہ کی غذا کا کام چل سکتا ہے تو پھر دودھ پلانے والی کو رمضان المبارک کے روزے چھوڑ نے کی اجازت نہیں ہے اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ جب بچہ کی عمر دو سال ہوجائے تو اس کو عورت کا دودھ پلانا ہی منع ہے۔ جب بچہ کی عمر دو سال ہوجائے اس کے دودھ پلانے کے لیے روزہ چھوڑ نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حیض اور نفاس والی عورت کا حکم : جس عورت کو رمضان المبارک میں ماہواری کے دن آجائیں یا ولادت کے بعد کا خون آ رہا ہو جسے نفاس کہتے ہیں یہ دونوں عورتیں رمضان المبارک کے روزے نہ رکھیں اگرچہ روزہ رکھنے کی طاقت ہو لیکن بعد میں ان روزوں کی قضا رکھ لیں۔ اور حیض و نفاس کے زمانہ کی نمازیں بالکل معاف ہیں۔ ان دونوں پر ان کی قضا نہیں۔ اللہ نے دین میں آسانی رکھی ہے : اللہ تعالیٰ شانہ، نے کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیا جو بندوں کی طاقت سے باہر ہو قرآن میں کئی جگہ اس کا ذکر ہے آیت بالا میں مریض اور مسافر کا حکم بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور تمہارے ساتھ مشقت کا ارادہ نہیں فرماتا۔ نمازوں کے بارے میں بھی مریض کے لیے آسانی ہے کہ کھڑے ہو کر لیٹ کر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ یا اشارہ کے ساتھ اپنی طاقت کے مطابق جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لے زکوٰۃ میں بھی مطلق مال ہونے پر زکوٰۃ فرض نہیں کی گئی بلکہ صاحب نصاب پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی اس وقت فرض ہے جب نصاب پر چاند کے حساب سے ایک سال گزر جائے اور پھر زکوٰۃ میں جو کچھ واجب ہوتا ہے وہ بہت قلیل ہے۔ یعنی کل مال کا چالیسواں حصہ دینا واجب ہوتا ہے۔ اسی طرح حج ہر شخص پر فرض نہیں بلکہ جو شخص مکہ معظمہ تک سواری پر آنے جانے کی طاقت رکھتا ہو اور ساتھ ہی سفر کا خرچ بھی ہو اور بال بچوں کا ضروری خرچہ پیچھے چھوڑ جانے کے لیے موجود ہو تب حج فرض ہوتا ہے اور وہ بھی زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ روزہ رمضان فرض ہونے کے باو جود مریض اور مسافر اور شیخ فانی حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لیے جو آسانیاں ہیں وہ اوپر ابھی بیان ہوچکیں دیگر احکام میں جو آسانیاں ہیں وہ بھی عام طور سے معلوم اور مشہور ہیں۔ قولہ تعالیٰ (وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ) (الایۃ) اس کے بارے میں صاحب روح المعانی ج 1 ص 6 فرماتے ہیں : ای و شرع لکم جملۃ ما ذکر من امر الشاھد بصوم الشھر و امر المرخص لہ بالقضاء کیف ما کان متواترًا أو متفرقا و بمراعاۃ عدۃ ما افطر من غیر نقصان و من الترخیص المستفاد من قولہ عزّوجل (یرید اللہ بکم الیسر او من قولہ تعالیٰ فعدۃ من ایام اخر) لتکملوا الخ۔ یعنی وَلِتُکْمِلُوْا میں واؤ عاطفہ ہے جو فعل و محذوف پر عطف ہے مطلب یہ کہ تمہارے لیے جو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم مشروع فرمایا کہ جو شخص ماہ رمضان میں موجود ہو وہ روزے رکھے اور مریض اور مسافر کو رمضان میں روزے چھوڑ کر بعد میں چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی کے موافق قضا روزے متواتر یا متفرق طریقے پر رکھنے کی جو اجازت دی یہ اس لیے ہے کہ تم ٹھیک اچھی طرح گنتی کا دھیان رکھ کر تکمیل کرو تاکہ اداء و قضاء کوئی روزہ رہ نہ جائے اور تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور یہ جو فرمایا (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَا کُمْ ) اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی یعنی اس کی حمد وثناء بیان کرنے کا حکم ہے۔ حضرت زید بن اسلم ؓ نے فرمایا کہ اس سے یوم عید کی تکبیریں مراد ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے چانددیکھنے کے وقت اللہ اکبر کہنا مراد ہے۔ اور (لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) میں تسہیل اور تیسیر کی علت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حالت سفر اور مرض میں روزہ چھوڑ کر بعد میں قضا رکھنے کی جو آسانی دی ہے یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ یہ آسانی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس نعمت کی قدر دانی کرو۔
Top