Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو ! فرض کئے گئے تم پر روزے جیسا کہ فرض کئے گئے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
رمضان کے روزوں کی فرضیت اور ان کے ضروری احکام ان آیات میں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا اعلان اور اظہار فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ (حضرت) محمد (مصطفے ٰ ) ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (2) نماز قائم کرنا۔ (3) زکوٰۃ ادا کرنا۔ (4) حج کرنا۔ (5) رمضان کے روزے رکھنا۔ (صحیح بخاری ص 6 ج 1) نماز اور روزہ دونوں بدنی عبادتیں ہیں اور زکوٰۃ مالی عبادت ہے اور حج میں مال بھی خرچ ہوتا ہے۔ بدنی محنت بھی ہوتی ہے اس لیے وہ بدنی عبادت بھی ہے اور مالی عبادت بھی ہے۔ نماز تو نبوت کے پانچویں ہی سال مکہ معظمہ میں فرض ہوگئی تھی جو شب معراج میں عطا کی گئی۔ اور رمضان شریف کے روزے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں 2 ھ میں فرض ہوئے۔ جس طرح نماز اور زکوٰۃ پہلی امتوں پر فرض تھی اسی طرح سے روزے بھی ان پر فرض تھے۔ (کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ ) میں یہ بتایا ہے کہ روزے کوئی نئی چیز نہیں ہیں یہ پہلی امتوں پر بھی فرض ہوئے تھے انہوں نے بھی روزے رکھے تم بھی رکھو۔ روزہ سے صفت تقویٰ پیدا ہوتی ہے : پھر روزہ کی حکومت اور فائدہ بتاتے ہوئے فرمایا (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ) روزے رکھنے سے نفس کے تقاضوں پر زد پڑتی ہے اور قوی شہوانیہ میں ضعف آتا ہے اور تقویٰ صغیرہ و کبیرہ ظاہرہ اور باطنہ گناہوں سے بچنے کا نام ہے۔ آیت کریمہ میں بتایا کہ روزہ کی فرضیت تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ہے۔ بات یہ ہے کہ انسان کے اندر بہیمیت کے جذبات ہیں۔ نفسانی خواہشات ساتھ لگی ہوئی ہیں اور نفس کا ابھار معاصی کی طرف ہوتا رہتا ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے بہیمیت کے جذبات کمزور ہوتے ہیں اور نفس کا ابھار کم ہوجاتا ہے اور شہوات و لذات کی امنگ گھٹ جاتی ہے۔ پورے رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ ایک مہینہ دن میں کھانے پینے اور جنسی تعلقات کے مقتضیٰ پر عمل کرنے سے اگر باز رہے تو باطن کے اندر ایک نکھار اور نفس کے اندر سدھار پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزے ان احکام و آداب کی روشنی میں رکھ لے جو احادیث میں وارد ہوئے ہیں تو واقعتہً نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے۔ جو گناہ انسان سے سر زد ہوجاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ دو چیزیں گناہ کا باعث بنتی ہیں۔ ایک منہ، دوسری شرمگاہ، حضرت امام ترمذی (رح) نے حضرت ابوہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے زیادہ کون سی چیز دوزخ میں داخل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ آپ نے جواب دیا : الفمّ والفرج یعنی منہ اور شرمگاہ۔ (ان دونوں کو دوزخ میں داخل کرانے میں زیادہ دخل ہے) ۔ روزہ میں منہ اور شرمگاہ دونوں پر پابندی ہوتی ہے اور مذکورہ دونوں راہوں سے جو گناہ ہوسکتے ہیں روزہ ان سے باز رکھنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اسی لیے تو ایک حدیث میں فرمایا کہ (اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ) یعنی روزہ ڈھال ہے۔ (گناہ سے اور آتش دوزخ سے بچاتا ہے۔ (بخاری ص 254 ج 1) اگر روزہ کو پورے اہتمام اور احکام وآداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کیا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہوجاتا ہے۔ خاص روزہ کے وقت بھی اور اس کے بعد بھی اگر کسی نے روزہ کے آداب کا خیال نہ کیا روزہ کی نیت کرلی کھانے پینے اور خواہش نفسانی سے باز رہا مگر حرام کمانے اور غیبت کرنے میں لگا رہا تو اس سے فرض تو ادا ہوجائے گا مگر روزہ کی برکات وثمرات سے محرومی رہے گی۔ جیسا کہ سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا (اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ مَا لَمْ یَخْرِقْھَا) (یعنی روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ ڈالے) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ : من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس للّٰہ حاجۃٌ فی ان یدعہ طعاع و شرابہ۔ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینے چھوڑ دے۔ (بخاری ص 255 ج 1) معلوم ہوا کہ کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑ نے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتا بلکہ روزہ کو فواحش و منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے محفوظ رکھنا لازم ہے روزہ منہ میں ہو اور آدمی بد کلامی کرے یہ اس کے لیے زیب نہیں دیتا۔ اسی لیے سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا (وَ اِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمْ اَحَدِکُمْ فَلَا یَرْفَثْ وَلاَ یَصْخَبْ فَاِنْ سَابَّہٗ اَحَدٌ اَوْ قَاتلَہٗ فَلْیَقُلْ اِنِّیْ اِمْرَءٌ صَاءِمٌ) (یعنی جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو گندی باتیں نہ کرے۔ شور نہ مچائے، اگر کوئی شخص گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا کرنے لگے تو (اس کو گالی گلوچ سے جواب نہ دے بلکہ) یوں کہہ دے کہ میں روزہ دار آدمی ہوں۔ (گالی گلوچ کرنا یا لڑائی کرنا میرا کام نہیں) ۔ (بخاری ص 255 ج 1) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فرمایا فخر بنی آدم ﷺ نے بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے لیے (حرام کھانے یا حرام کرنے یا غیبت کرنے کی وجہ سے) پیاس کے علاوہ کچھ نہیں اور بہت سے تہجد گزار ایسے ہیں جن کے لیے (ریا کاری کی وجہ سے) جاگنے کے سوا کچھ نہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 177)
Top