Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي : میں الْقِصَاصِ : قصاص حَيٰوةٌ : زندگی يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور تمہارے لیے قصاص میں بڑی زندگی ہے اے عقل والو ! تاکہ تم پرہیز کرتے رہو۔
قانون قصاص میں بڑی زندگی ہے : قصاص کا قانون جاری کرنے اور اس کو عملاً نافذ کرنے میں بہت بڑی زندگی ہے۔ اس مضمون کو (وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ) میں بیان فرمایا ہے قصاص میں بظاہر قاتل کی موت ہے لیکن اسے امت کے حق میں بڑی حیات فرمایا کیونکہ جب قصاص کا قانون نافذ ہوگا تو قاتل بھی قتل کرنے سے بچے گا اور ہر شخص کے کنبہ اور قبیلے کے لوگ اس بات کے فکر مند رہیں گے کہ ہمارے کسی فرد سے کوئی شخص قتل نہ ہوجائے۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ائمہ اربعہ اور جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اگر ایک شخص کو چند آدمی مل کر قتل کردیں تو ان سب کو اس ایک مقتول کے عوض قتل کیا جائے گا۔ (ص 210 ج 1) حضرت سعید بن المسیب ؓ نے بیان فرمایا کہ پانچ یا سات آدمیوں نے کسی ایک شخص کو تنہائی میں پوشیدہ طور پر قتل کردیا تھا تو حضرت عمر ؓ نے ان پانچوں یا ساتوں کو ایک شخص کے قصاص میں قتل کردیا اور فرمایا کہ اگر شہر صنعا کے سارے آدمی مل کر بھی شخص واحد کو قتل کرتے تو میں ان سب کو قتل کردیتا۔ (رواہ مالک وروی البخاری عن ابن عمر نحوہ کمافی المشکوٰۃ ص 302) قصاص عین عدل ہے، اس کو ظلم کہنا ظلم ہے : قصاص کا قانون نافذ ہونے سے اور اس پر عمل کرنے سے بہت ہی جانیں بچتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے باز رہتے ہیں اس لیے قصاص کو بڑی حیات کا ذریعہ بتایا۔ بہت سے جاہل قصاص کے قانون کو ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ لوگ ظلم کا معنی بھی نہیں جانتے، ظلم کرنے والاتو قاتل ہے جس نے ناحق قصداً و عمداً کسی کو قتل کیا۔ قتل کے بدلہ میں قاتل کو قتل کردینا عین انصاف ہے اس کو ظلم سے تعبیر کردینا جہالت اور حماقت ہے۔ یہ جاہل کہتے ہیں کہ قاتل کو قتل نہ کیا جائے بلکہ جیل میں ڈال دیا جائے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس سے تو اور زیادہ قتل پر جرات ہوجاتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ قتل تو کر دوں، تھوڑی بہت جیل بھگت لوں گا۔ جن کا مزاج قتل اور غارت گری اور ڈکیتی اور فتنہ فساد کا ہے وہ جیل سے بالکل نہیں ڈرتے۔ جیل کی دیواریں پھاند کر اور کھڑکیاں توڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے نزدیک انسانوں کی جانوں کی قیمت نہیں ہے وہ لوگ قصاص کو اچھا نہیں سمجھتے۔ انہیں قاتل پر رحم آتا ہے۔ عامۃ الناس کی جانوں پر رحم نہیں آتا۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ جس نے قصداً قتل کیا تو اس میں قصاص ہے اور جو شخص قصاص نافذ کرنے کے بارے میں آڑے آجائے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی لعنت ہے اور سب انسانوں کی لعنت ہے۔ (آخر حدیث من کتاب الدیات) قصاص یادیت معاف کرنا سربراہ مملکت کے اختیار میں نہیں ہے دنیا میں ایک یہ جاہلانہ قانون نافذ ہے کہ ملک کا سربراہ قاتل کی درخواست پر اپنے ذاتی و جماعتی فوائد کو سامنے رکھ کر قاتل کو معاف کردیتا ہے۔ یہ شریعت اسلامیہ کے بالکل خلاف ہے۔ مقتول کے وارثوں کو حق ہے کہ معاف کریں یا قصاص لیں یا دیت لیں، کسی امیر یا وزیر یا صدر یا بادشاہ کو معافی دینے کا اور وارثوں کا حق باطل کرنے کا بالکل اختیار نہیں ہے جو بھی کوئی سربراہ ایسا کرے گا وہ قانون قرآن کا باغی ہوگا۔ اور اس کی سزا کا مستحق ہوگا۔
Top