Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 167
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا١ؕ كَذٰلِكَ یُرِیْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّارِ۠   ۧ
وَقَالَ : اور کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْا : پیروی کی لَوْ اَنَّ : کاش کہ لَنَا : ہمارے لیے كَرَّةً : دوبارہ فَنَتَبَرَّاَ : تو ہم بیزاری کرتے مِنْهُمْ : ان سے كَمَا : جیسے تَبَرَّءُوْا : انہوں نے بیزاری کی مِنَّا : ہم سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُرِيْهِمُ : انہیں دکھائے گا اللّٰهُ : اللہ اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال حَسَرٰتٍ : حسرتیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَا ھُمْ : اور نہیں وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنَ النَّار : آگ سے
اور کہیں گے وہ لوگ جنہوں نے پیروی کی کاش ہم کو واپس جانا نصیب ہوجاتا تو ہم ان سے بیزار ہوجاتے۔ جیسا کہ وہ ہم سے بیزار ہوگئے۔ اللہ اسی طرح دکھائے گا ان کو ان کے اعمال حسرتیں بناکر اور وہ آگ سے نکلنے والے نہ ہوں گے۔
قیامت کے دن متبوعین کا اپنے ماننے والوں سے بیزاری ظاہر کرنا اور اس وقت ان کی پشیمانی ہونا ان آیات میں کافروں کی ایک اور حسرت اور ندامت اور شناعت اور فظاعت ذکر فرمائی۔ اور وہ یہ کہ جو لوگ دنیا میں پیشوا تھے اور قوموں اور قبیلوں کے اور ملک و وطن کے بڑے تھے جن کے پیچھے چل کر ان کی اولاد نے اور قوم و قبیلہ نے اور ملک کے بسنے والوں نے اپنا ناس کھویا اور کفر اور شرک میں مبتلا ہوئے۔ یہ سردار ان قوم اور زعماء ملک و وطن قیامت کے دن اپنے ماننے والوں اور پیچھے چلنے والوں اور ان کی رضا مندی کیلئے قربانیاں دینے والوں سے صاف صاف کہہ دیں گے کہ ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں اور یہ بیزاری ایسے موقع پر ہوگی جب ان کے ماننے والے اس دنیا سے گزر چکے ہوں گے اور کفر و شرک پر مرچکے ہوں گے۔ وہاں نہ ایمان لانا معتبر ہوگا نہ دنیا میں واپس آسکیں گے اور عذاب بھگتنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا ان کے آپس کے تعلقات ختم ہوچکے ہوں گے اور کوئی کسی کو کسی طرح بھی مدد نہ دے سکے گا۔ کما قال تعالیٰ (مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ) (سورۃ مومن) ” ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جس کی اطاعت کی جائے) ۔ جب سردار ان قوم بیزاری ظاہر کردیں گے تو وہ لوگ جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا یوں کہیں گے کہ اگر ہمیں دنیا میں واپس جانا نصیب ہوجائے تو ہم ان سے اسی طرح بیزاری ظاہر کریں جیسا کہ آج وہ ہم سے بیزار ہوگئے۔ پھر فرمایا (کَذٰلِکَ یُرِیْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْھِمْ ) (یعنی جس طرح ان کو آپس کی بیزاری کا منظر دکھایا جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے دوسرے اعمال بھی حسرتیں بنا کر ان کو دکھائے گا اور حسرت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ دوزخ کے عذاب کے ساتھ حسرتوں کا عذاب مستقل عذاب ہوگا۔ بار بار نادم ہوں گے کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا اتباع کرلیتے تو اچھا تھا۔ کفر و شرک اختیار نہ کیا ہوتا، فلاں فلاں عمل اختیار کرتے تو کیا ہی اچھا ہوتا اور اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے اس دن کا سوچنا، سمجھنا، نادم ہونا، دوزخ سے نکلنے کا ذریعہ نہ بنے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ کبھی بھی اس سے نکلنا نصیب نہ ہوگا۔ (وَمَا ھُمْ بْخَارْجْیْنَ مِنَ النَّارْ )
Top