Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 164
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ الْفُلْكِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَ بَثَّ فِیْهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ١۪ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِيْ : میں خَلْقِ : پیدائش السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور اخْتِلَافِ : بدلتے رہنا الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَالْفُلْكِ : اور کشتی الَّتِىْ : جو کہ تَجْرِيْ : بہتی ہے فِي : میں الْبَحْرِ : سمندر بِمَا : ساتھ جو يَنْفَعُ : نفع دیتی ہے النَّاسَ : لوگ وَمَآ : اور جو کہ اَنْزَلَ : اتارا اللّٰهُ : اللہ مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مِنْ : سے مَّآءٍ : پانی فَاَحْيَا : پھر زندہ کیا بِهِ : اس سے الْاَرْضَ : زمین بَعْدَ مَوْتِهَا : اس کے مرنے کے بعد وَبَثَّ : اور پھیلائے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ : ہر قسم دَآبَّةٍ : جانور وَّتَصْرِيْفِ : اور بدلنا الرِّيٰحِ : ہوائیں وَالسَّحَابِ : اور بادل الْمُسَخَّرِ : تابع بَيْنَ : درمیان السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْقِلُوْنَ : ( جو) عقل والے
بلاشبہ آسمان اور زمین کے پیدا فرمانے میں اور رات و دن کے الٹ پھیر میں اور کشتیوں میں جو کہ چلتی ہیں سمندر میں وہ سامان لے کر جو لوگوں کو نفع دیتا ہے اور جو کچھ نازل فرمایا اللہ نے آسمان سے یعنی پانی پھر زندہ فرمایا اس کے ذریعہ زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد اور پھیلا دیئے زمین میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جانور اور ہواؤں کے گردش کرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں ضرور نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
توحید کے دلائل کا بیان تفسیر در منثور ص 163 ج 1 میں ہے کہ جب آیت (وَ اِلٰھُکُمْ الہٌ وَّاحِدٌ) نازل ہوئی تو مشرکین کو تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ یہ کہتے ہیں کہ معبود صرف ایک ہی ہے۔ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی نشانی دکھائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے خالق ومالک ہونے کا اور کائنات میں تصرف فرمانے کا تذکرہ فرمایا۔ مشرک بھی جانتے ہیں کہ یہ تصرفات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں کرتا۔ سمجھ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں اور حضرت عطاء سے منقول ہے کہ جب مدینہ منورہ میں آیت کریمہ (وَ اِلٰھُکُمْ الہٌ وَّاحِدٌ) نازل ہوئی تو مکہ میں کفار قریش نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سب لوگوں کا ایک ہی معبود ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ ان آیات میں غور کریں سو سمجھ میں آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے اور واحد ہے اور وہ ہر چیز کا معبود ہے اور ہر چیز کا خالق ہے (ایضاً ص 174) ۔ مشرکین کا عجیب طریقہ تھا اور اب بھی ہے کہ پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے رزق دیا اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی پرورش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اولاد وہ دیتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں وہ پیدا فرماتا ہے لیکن مشرکین عبادت دوسروں کی کرتے ہیں اور عجیب تربات ہے کہ جب مشرکین مکہ کے سامنے یہ بات آئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے تو تعجب سے کہنے لگے۔ (اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِِلٰہًا وَّاحِدًا اِِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ) (کیا تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا بلاشبہ یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے) دنیا بھی عجیب جگہ ہے جو بھی چیز رواج پا جائے خواہ کیسی ہی باطل اور بری ہو رواج کی وجہ سے لوگ اسے اچھی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ انسانوں پر فرض ہے کہ وہ صرف اپنے خالق مالک کی عبادت کریں۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے کو معبود نہ بنائیں۔ یہی انسانوں کا دین ہے جو ان کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بتایا اور اختیار کیا اور ان کے بعد تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اس کی دعوت دیتے رہے۔ جب لوگوں میں شرک پھیل گیا تو اسی سے مانوس ہوگئے اور توحید کی دعوت پر تعجب کرنے لگے۔ مذکورہ بالا آیت میں چند ایسی چیزوں کا ذکر ہے جو سب کے سامنے ہیں اور سب کو اقرار ہے کہ یہ ساری چیزیں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت اور تصرف سے وجود میں آئی ہیں اور ان کی بقاء اور وجود صرف اس کی مشیت سے ہے۔ کسی دوسرے کو ذرہ بھی ان کے وجود و بقا میں دخل نہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق : سب سے پہلے آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا ان کی تخلیق صرف اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ سورة زمر میں فرمایا : (وَ لَءِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ) ” اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا فرمایا آسمانوں کو اور زمین کو تو وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ “ سورة احقاف میں فرمایا (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اِءْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَا اَوْ اَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ) ” آپ کہیے کہ یہ تو بتاؤ جن چیزوں کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو مجھ کو یہ دکھلاؤ کہ انہوں نے کون سی زمین پیدا کی یا ان کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے۔ میرے پاس کوئی کتاب جو اس سے پہلے کی ہو یا اور کوئی مضمون منقول ہو لے آؤ۔ اگر تم سچے ہو۔ “ رات دن کا آنا جانا : آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر فرمانے کے بعد اختلاف اللیل و النہار یعنی رات دن کے آگے پیچھے آنے ایک کے کم ہونے دوسرے کے زیادہ ہونے کا تذکرہ فرمایا۔ سورة فرقان میں ارشاد ہے (وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا) ” اور وہ وہی ذات پاک ہے جس نے بنا دیا رات و دن کو آگے پیچھے آنے والا اس شخص کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ کرے یا ارادہ کرے شکر گزار ہونے گا “۔ سورة زمر میں فرمایا (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ) ” پیدا فرمایا آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ، وہ لپیٹتا ہے رات کو دن پر، اور اس نے مسخر فرمایا سورج کو اور چاند کو “ سورۂ فاطر میں فرمایا (یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ یُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ ) (وہ داخل فرماتا ہے رات کو دن میں اور داخل فرماتا ہے دن کو رات میں اور اس نے مسخر فرمایا سورج کو اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے اپنی مقررہ اجل کے لیے، یہ اللہ ہے تمہارا رب ہے اسی کے لیے ملک ہے اور جب لوگوں کو تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں) ۔ رات اور دن کا وجود میں آنا کم و بیش ہونا کسی علاقہ میں کسی زمانہ میں رات کا زیادہ ہونا اور کسی علاقہ میں کسی زمانہ میں دن کا زیادہ ہونا سب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے تحت ہے کسی کو اس میں ذرا بھی دخل نہیں سب اہل عقل اس کو جانتے اور مانتے ہیں۔ سمندروں میں جہازوں کا چلنا : پھر تیسری نشانی کا ذکر فرمایا (وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ ) (یعنی جو کشتیاں سمندر میں چلتی ہیں وہ سامان لے کر جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں) ان کشتیوں کا چلنا بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے سمندر خود اللہ تعالیٰ کی بڑی مخلوق ہے اس میں طرح طرح کے جانور بہت سی چیزیں ہیں جو انسانوں کے کام آنے والی ہیں۔ سمندروں نے ایک براعظم کو دوسرے براعظم میں ملا رکھا ہے۔ اگر سمندر نہ ہوتے تو خشکی ہی کے ذریعہ دور و نزدیک کے سامان کو منتقل کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر میں کشتیاں جاری فرما دیں اگر اللہ چاہتا تو کوئی کشتی سمندر کی سطح پر نہ چلتی بلکہ ڈوب کر رہ جاتی۔ یہ سامان یورپ سے ایشیا اور ایشیا سے یورپ تک جاتا ہے۔ اگر براعظم کے لوگ دوسرے براعظم کی پیداوار سے منتفع ہوتے ہیں باوجودیکہ ہوائی جہازوں کی سروس بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ٹرینیں بھی کثیر تعداد میں چلنے لگی ہیں لیکن سامان کو نقل و حمل کے لیے آج تک بحری جہازوں سے بےنیازی نہیں ہے۔ سورۂ نحل میں فرمایا (وَ تَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) (اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ سمندر میں پانی کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں اور تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو) ۔ سمندر کا سفر ہے نیچے پانی ہے۔ اوپر آسمان ہے۔ بھاری بھر کم جہاز، دریا کا تلاطم، ہواؤں کے تھپیڑے اور ڈوبنے کا ڈر۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ ہی حفاظت فرماتے ہیں۔ ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ جو سامان لدا ہوا ہے اور جو لوگ اس میں سوار ہیں۔ صرف اللہ کی حفاظت سے منزل مقصود تک پہنچتے ہیں جب سمندر میں طغیانی آجائے تو ڈرتے ہیں اور لرزتے ہیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نظر نہیں جاتی اور صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ سارے باطل معبودوں کی یاد یوں ہی دھری رہ جاتی ہیں۔ سورة عنکبوت میں فرمایا (فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ وَ لِیَتَمَتَّعُوْا فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) ” پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ وہ ناقدری کریں اس نعمت کی جو ان کو ہم نے دی اور تاکہ وہ نفع حاصل کرلیں۔ سو عنقریب جان لیں گے۔ ) یہ مشرک انسان کا عجیب مزاج ہے کہ جب مصیبت پڑتی ہے تو صرف اللہ کو یاد کرتا ہے اور اسی کو پکارتا ہے اور جب مصیبت سے چھوٹ جاتا ہے تو شرک کرنے لگتا ہے۔ اور غیر اللہ کو پکارتا ہے اور اس کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔ بارش کا نازل فرمانا : چوتھی نشانی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ ) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے جو پانی اتارا ہے اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ فرمایا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خالق مالک اور واحد ہونے کی نشانیوں میں سے ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت بہت زیادہ ہے۔ کروڑوں انسان اور چوپائے اور درخت اس سے سیراب ہوتے ہیں لیکن ختم ہونے نہیں پاتا۔ بارشیں ہوتی ہیں میٹھا پانی برستا ہے۔ خشک زمینیں اس سے سیراب ہوتی ہیں۔ کھیتیاں ہری بھری ہوتی ہیں۔ باغات سرسبز و شاداب ہوتے ہیں۔ تالابوں میں پانی جمع ہوتا ہے۔ مہینوں انسانوں اور جانور اس کو اپنے خرچ میں لاتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں بارش کے سوا پانی کا کوئی انتظام ہی نہیں۔ کنوئیں ہیں تو وہ بھی بہت گہرے اور کم پانی والے ہیں۔ پانی پینے کپڑے دھونے اور کھیتوں کو سیراب کرنے، بارش کے لیے اللہ سے لو لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو جان میں جان آتی ہے۔ جن علاقوں میں میٹھے پانی کی نہروں سے سیرابی ہوتی ہے وہ بھی آسمان ہی کا برسایا ہوا ہے۔ کیونکہ آسمان کی بارشیں پہاڑوں پر برف کی صورت میں منجمد ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ برف پگھل پگھل کر نہروں میں آتی ہے۔ سورة شوریٰ میں فرمایا (وَھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ وَھُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ ) (اور وہی ہے جو بارش نازل فرماتا ہے اس کے بعد کہ وہ ناامید ہوچکے اور وہ پھیلاتا ہے اپنی رحمت کو اور وہی کام بنانے والا، سب تعریفوں کے لائق ہے۔ سورة حم سجدہ میں فرمایا (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) ” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دیکھتا ہے کہ دبی ہوئی پڑی ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے بلاشبہ جس نے اس زمین کو زندہ فرمایا وہی مردوں کو زندہ کر دے گا۔ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) سورۃ روم میں فرمایا : (فَانْظُرْ الآی اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰہِ کَیْفَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰی وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) ” سو رحمت الٰہی کے آثار دیکھو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد کس طرح زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ زمین کا خشک ہوجانا اور اس کے درختوں کا سوکھ جانا اس کو زمین کی موت سے تعبیر فرمایا اور اس کی سر سبزی و شادابی کو حیات سے تعبیر فرمایا۔ جانوروں کا پیدا فرمانا اور زمین میں پھیلانا : اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے پانچویں نشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ (وَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ ) کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پھیلا دیے ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جانور۔ اس کا عطف اَنْزَلَ پر بھی ہوسکتا ہے۔ اور اَحْیٰی پر بھی کما ذکرہ صاحب الروح۔ عربی لغت کے اعتبار سے دَآبَّۃ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمین پر چلے پھرے اگرچہ عرف عام میں بڑے بڑے جانور گائے، بیل، بھینس، اونٹ وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ زمین پر چلنے پھرنے والے طرح طرح کے جانور بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ کس قدرکثیر تعداد میں مختلف اجناس و اصناف کے جانور پیدا فرمائے ہیں۔ ان کی طبیعتیں الگ الگ ہیں۔ صورتیں الگ الگ ہیں۔ منافع مختلف ہیں۔ اور ان سب پر انسان کو مسلط فرما دیا ہے۔ خوب زیادہ غور کیا جائے اور ایک ایک جانور کے خواص پر نظر ڈالی جائے تو بیشمار قدرت الٰہیہ کے مظاہر سمجھ میں آجاتے ہیں۔ ہواؤں کو مختلف رخوں پر چلانا : چھٹی نشانی ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاح یعنی ہواؤں کو چلانے پھرانے ان کے رخوں کو بدلنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جیسا چاہتے ہیں۔ ہوائیں چلتی ہیں جس رخ پر اللہ چاہتے ہیں۔ ادھر ہی جاتی ہیں۔ تیز چلنے کا حکم ہو تو تیز چلتی ہیں اور آہستہ چلنے کا حکم ہو تو آہستہ چلتی ہیں۔ عذاب کا ذریعہ بھی بنتی ہیں اور رحمت کا سبب بھی۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو قدرت نہیں ہے کہ ان کا رخ بدل دے یا ان کی تیز رفتاری کو کم کر دے یا سست رفتاری کو تیز کر دے۔ سورۂ روم میں فرمایا (وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ یُّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِیُذِیْقَکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ بِاَمْرِہٖ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ” یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو خوشخبری دیتی ہیں اور تاکہ تم کو اپنی رحمت چکھا دے اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں تاکہ اس کے فضل کو تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ قوم عاد پر اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کے لیے ہوا بھیج دی وہ آندھی بن کر سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی۔ پوری نافرمان قوم ہلاک اور برباد ہوگئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے اس کو نعمت بنا دیا۔ صبح کو ایک ماہ کی مسافت تک لے جاتی تھی اور شام کو بھی ایک ماہ کی مسافت پر لے جاتی تھی۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ شانہ نے آندھی بھیج دی جس نے دشمنان اسلام کو واپس ہونے پر مجبور کردیا۔ ان کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں ان کے چہرے مٹی سے اٹ گئے۔ سخت تیز اور سخت ٹھنڈی ہوا تھی جس کی وجہ سے بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ سورۃ احزاب میں ارشاد فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآءَ تْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا) ” اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ کی نعمت کو جبکہ آگئے تمہارے پاس لشکر، سو ہم نے بھیج دیا ان کے اوپر ہوا کو اور ایسے لشکر کو جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے، صحیح بخاری میں 141 ج 1 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : نُصِرت بالصبا و أھلکت عاد بالدبور یعنی صبا کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور قوم عاد دبور کے ذریعہ ہلاک کی گئی۔ (صبا اور دبور ہواؤں کے نام ہیں) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہوا رحمت لے کر آتی ہے اور عذاب لے کر آتی ہے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اسے برا نہ کہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ مانگو۔ (سنن ابی داؤد ص 239 ج 1) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب ہوا چلتی تھی تو رسول اللہ ﷺ یوں دعا فرماتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا فِیْھَا وَ خَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا فِیْھَا وَ شَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ ) (اے اللہ میں آپ سے اس کی خیر کا اور جو کچھ اس میں ہے اس کی خیر کا اور جو کچھ یہ لے کر بھیجی گئی اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے اور جو کچھ یہ لے کر بھیجی گئی ہے اس کے شر سے۔ (صحیح مسلم ص 294 ج 1) بادلوں کی تسخیر : ساتویں نشانی ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِبَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ) (اور بادلوں میں نشانی ہے جو مسخر ہیں آسمان و زمین کے درمیان) ۔ بادلوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر فرمایا کہ یہ پانی بھر بھر کر لاتے ہیں جب بارش ہوتی ہے، تو ان سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ بارش ہونیوالی ہے۔ ان کو دیکھ کر لوگ اپنا انتظام کرلیتے ہیں اور پانی سے بھرے ہوئے بادل ادھر ہی جاتے ہیں۔ جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ سورۂ اعراف میں فرمایا (وَ ھُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) ” اور وہ ایسا ہے کہ اپنی رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے جو خوش کردیتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک سر زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر اس کے ذریعہ پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو۔ “ بادلوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو میدان تیہ میں سایہ عطا فرمایا۔ بادل ان کے ساتھ چلتے تھے، اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور تصرف سے بادلوں کا ہلکا بھاری ہونا بہت زیادہ بادلوں کا آجانا بالکل ختم ہوجانا نظروں کے سامنے ہوتا رہتا ہے۔ سب اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ قوم عاد پر عذاب آنے کی ابتداء اسی طرح سے ہوئی تھی کہ عرصہ دراز سے بارش نہ ہوئی تھی اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ بادل ظاہر ہوگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ بادل بارش برسائے گا۔ سخت گرمی کی وجہ سے جب میدان میں نکل کر کھڑے ہوگئے تو بجائے بارش کے سخت آندھی آگئی جس کی وجہ سے وہ بالکل تہس نہس ہو کر رہ گئے صحیح بخاری ص 715 ج 2 میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ جب کوئی بادل یا ہوا دیکھتے تھے تو اس کا اثر آپ کے چہرہ مبارک میں ظاہر ہوجاتا تھا۔ حضرت عائشہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ لوگ جب بادل کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ اس امید پر کہ بارش ہوگی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ کے سامنے بادل آجائے تو آپ کے چہرہ مبارک میں پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ مجھے کیا اطمینان ہے اس میں عذاب ہو۔ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا۔ جب انہوں نے عذاب کو دیکھا ( جس کی ابتداء بادل ظاہر ہونے سے تھی) تو انہوں نے کہا (ھَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا) (کہ یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا) لیکن وہ ہوا کی صورت میں سخت عذاب تھا۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ جب آسمان میں کچھ بادل وغیرہ معلوم ہوتا تھا تو آنحضرت سرور عالم ﷺ کے چہرے مبارک کا رنگ بدل جاتا تھا آپ کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہوجاتی تھی تو آپ کی وہ کیفیت جاتی رہتی تھی۔ (صحیح مسلم ص 294 ج 1) یہ امور جو آیت میں مذکور ہوئے ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خالقیت کی نشانیاں ہیں توحید کے منکر بھی مانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اور اسی کے تصرف سے عالم میں سب کچھ ہو رہا ہے پھر بھی توحید کا اقرار نہیں کرتے اور شرک میں مبتلا ہیں۔ ھداھم اللّٰہ تعالیٰ
Top