Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 157
اُولٰٓئِكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ١۫ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
صَلَوٰتٌ
: عنایتیں
مِّنْ
: سے
رَّبِّهِمْ
: ان کا رب
وَرَحْمَةٌ
: اور رحمت
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُهْتَدُوْنَ
: ہدایت یافتہ
یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے عام رحمتیں ہیں اور خاص رحمت بھی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔
صَلَوٰتٌ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ: صابرین کی صفت بیان فرمانے کے بعد (کہ جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے تو ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) کہتے ہیں) ان کے لیے جو بشارت ہے اس کا ذکر فرمایا اور وہ یہ کہ (اُولٰٓءِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ) لفظ صلوات صلاۃ کی جمع ہے صلاۃ رحمت کو کہتے ہیں اور صلوٰت کے ساتھ لفظ رحمت بھی مذکور ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ لفظ رحمت بطور تاکید کے لایا گیا ہے۔ وکرّر الرحمۃ لما اختلف اللفظ تاکیدا اشباعا للمعنی۔ (قرطبی ص 77 ا ج 2) مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صلاۃ کی نسبت ہو تو اس سے تزکیہ اور مغفرت مراد ہوتی ہے اور اس کی جمع لانے میں اس کی کثرت پر اور اس کی مختلف انواع پر تنبیہ فرمائی اور رحمت سے مراد لطف اور احسان ہے۔ (ص 117 ج 1) بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ صلاۃ سے عام مہربانیاں اور رحمت سے خاص رحمت مراد ہے۔ رحمتوں کا انعام ذکر کرنے کے بعد فرمایا (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ) کہ صابرین جو مصیبت کے وقت ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھتے ہیں یہ لوگ اللہ کی قضا پر دل اور زبان سے رضا مندی ظاہر کر کے اور ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھ کر حق اور ثواب کی راہ پانے والے ہیں۔ (بیضاوی ص 118 ج 2) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ صابرین کے لیے صلوات اور رحمت کے وعدہ کے ساتھ ہی جو ان کو ہدایت یافتہ بتایا اور ان کی شان میں المھتدون فرمایا یہ زائد چیز بھی بہت عمدہ ہے۔ رحمتوں کا وعدہ بھی اور ہدایت پر ہونے کا اعلان بھی یہ سب کچھ نفع ہی نفع ہے اور خیر ہی خیر ہے۔ صبر سے متعلق چند فوائد فائدہ : (1) اس دنیا کا یہ مزاج ہے کہ دکھ تکلیف کا ہر ایک کو سامنا کرتا پڑتا ہے۔ اور نہ آرام ہمیشہ رہتا ہے اور نہ تکلیف ہمیشہ رہتی ہے۔ مومن بندے صبر اور شکر کو اختیار کرتے ہیں جو لوگ صبر نہیں کرتے اجر سے محروم ہوتے ہیں۔ شدہ شدہ کچھ دن کے بعد ان کو بھی صبر آہی جاتا ہے اور مصیبت کو بھول جاتے ہیں لیکن اس صبر کا کوئی اعتبار نہیں اجر وثواب اور فضیلت اسی صبر کے متعلق ہے جو عین مصیبت کے وقت ہو۔ حضرت ابو امامۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم اگر تو صدمہ اولیٰ کے وقت صبر کرے اور ثواب کی امید باندھے تو میں تیرے لیے جنت کے علاوہ کسی دوسرے ثواب سے راضی نہ ہوں گا۔ (یعنی تیرے صبر اور احتساب کا بدلہ جنت ہی ہے) ۔ (رواہ ابن ماجہ ص 144 ج 1) (صحیح بخاری ص 171 ج 1 اور صحیح مسلم ص 302 ج 1) میں ایک قصہ لکھا ہے جو حضرت انس ؓ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ کا ایک عورت پر گزر ہوا وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی آپ نے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر اور صبر کر، اس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں، کہنے لگی کہ ہٹو مجھے چھوڑ دو کیونکہ تمہیں وہ مصیبت نہیں پہنچی ہے جو مجھے پہنچی ہے (اگر تمہیں ایسی مصیبت پہنچتی تو پتہ چلتا کیسی مصیبت ہے۔ اس کے بعد آپ تشریف لے گئے) اس عورت سے کسی نے کہا کہ (تجھے معلوم ہے کہ کس کو تو نے بےڈھنگا جواب دیا ہے) آپ نبی کریم ﷺ تھے۔ یہ سن کر وہ عورت بار گاہ رسالت میں حاضر ہوئی دروازہ پر پہنچی تو وہاں دربان (چوکیدار) نہ پائے (حالانکہ) اس کو خیال تھا کہ آپ بہت ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہوں گے اور آپ کے دروازہ پر بادشاہوں کی طرح دربان ہوں گے یہ دیکھ کر حیرت میں رہ گئی کہ سید الخلائق ﷺ کی کیسی سادہ زندگی ہے، کہنے لگی یا رسول اللہ میں آپ کو پہچانی نہیں (اس لیے ایسا جواب دیا) آپ نے فرمایا اصلی صبر وہی ہے جو تازہ تازہ مصیبت کے موقع پر ہو (کیو ن کہ وقت گزر جانے پر خود ہی صبر آجاتا ہے) ۔ اس حدیث میں اسی خاص نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرآن و حدیث میں جو صبر کی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اس سے وہ صبر مراد ہے جو عین مصیبت اور تکلیف کے وقت ہو نیانیا حادثہ ہے ابھی ابھی کسی کی موت ہوئی ہے یا رقم کھو گئی ہے دل رنجیدہ ہے اس وقت اگر ہم نے صبر کرلیا تو اس صبر کی بہت بڑی قیمت ہے اور بہت بڑی فضیلت ہے بلکہ حقیقت میں صبر ہی وہ ہے جو دل دکھا ہوا ہونے کے وقت ہو کیونکہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے مصیبت کا احساس طبعی طور پر کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ دن کے بعد تکلیف کا بالکل احساس نہیں رہتا۔ وقت گزر جانے پر جب مصیبت بھول بھلیاں ہوگئی تو یہ نہ صبر ہے اور نہ اس کی کوئی فضیلت ہے اس میں مومن کافر سب برابر ہیں۔ جس صبر پر مومنین سے اجر کا وعدہ ہے اس سے وہی صبر مراد ہے جو اس وقت ہو جبکہ رنج تازہ ہو، دل بےچین ہو۔ طبیعت بےقرار ہو۔ برے برے وسوسے آ رہے ہوں۔ زبان اللہ پاک پر اعتراض کرنے کے لیے کھلنا چاہتی ہو۔ نفس خلاف شرع کاموں پر ابھارتا ہو۔ ایسی حالت میں صبر کرنا باعث اجر ہے۔ فائدہ : (2) کسی کی موت پر دل کا رنجیدہ ہونا یا آنکھوں سے آنسو آجانا یا زبان سے رنج اور تکلیف کا اظہار کردینا یہ بےصبری نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں ص 174 ج 1) ہے کہ حضور اقدس ﷺ اپنے صاحبزادہ حضرت ابراہیم ؓ کی جانکنی کے وقت تشریف لائے اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ (عام لوگ تو بچوں کی موت پر روتے ہی ہیں) بھلا آپ بھی رونے لگے آپ نے فرمایا یہ طبعی رحمت ہے (جو اللہ پاک نے دل میں رکھی ہے) پھر فرمایا کہ بیشک آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم زدہ ہے اور زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہو پھر فرمایا اے ابراہیم تمہاری جدائی سے ہم کو رنج ہے۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ آنکھوں کے آنسوؤں اور دل کے رنج پر عذاب نہیں دیتا، لیکن وہ زبان کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم فرماتا ہے۔ (ص 174 ج 1) یعنی زبان سے برے کلمات کہنے اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنے پر گرفت اور عذاب ہے۔ اور اگر یوں کہا کہ میں اللہ کی قضا اور قدر پر راضی ہوں اس نے جو کچھ کیا بہتر ہے تو اسکی وجہ سے اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے۔ فائدہ : (3) جس طرح زبان سے برے کلمات نکالنا ممنوع ہے اور بےصبری ہے اسی طرح عمل سے کوئی ایسی حرکت کرنا جو صبر کے خلاف ہے یا غیر مسلموں کا طریقہ ہے اس کو اختیار کرنا بھی سخت ممنوع ہے۔ لوگوں کی عادت ہے کہ مصیبت، دکھ تکلیف کے وقت خاص کر جب کوئی بچہ فوت ہوجائے اپنے چہرے پر طمانچے مارتے ہیں۔ دیوار پر سر دے کر مارتے ہیں گریبان پھاڑتے ہیں۔ جاہلانہ الفاظ زبان سے نکالتے ہیں اور کہتے ہیں میرا ہی بچہ رہ گیا تھا جو اسے اللہ نے موت دی یہ سب جہالت ہے اور اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرنا کفر ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے جو رخساروں پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی دہائی دے۔ (صحیح مسلم ص 70 ج 1) بعض علاقوں میں مرنے والے کے سوگ میں بال منڈا دیتے ہیں اور خاص کر عورتیں تو بہت ہی چیختی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے بری ہوں جو (کسی کی موت پر) سرمونڈے آوازیں بلند کرے اور کپڑے پھاڑے۔ (صحیح مسلم ص 70 ج 1) عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ عزیزوں کی موت پر چیختی ہیں اور چلاتی ہیں، گھر سے باہر آوازیں جاتی ہیں اور برس چھ مہینے تک جو بھی کوئی مہمان آئے اس کے سامنے زبردستی کا رونا لے کر بیٹھ جاتی ہیں اور نوحہ کرنا ان کی ایک خاص عادت ہے۔ میت کو خطاب کرکے کہتی ہیں اے میرے پیارے اے میرے جوان اے بیٹا تو کہاں گیا۔ مجھے کس پر چھوڑا تو ایسا تھا ویسا تھا، اور اس طرح کی بہت سی باتیں پکار پکار کر بیان کرتی ہیں اور رونا پیٹنا مہینوں تک کے لیے ان کا مشغلہ بن جاتا ہے۔ باو جود منع کرنے کے اور شرعی ممانعت کے جاننے کے نوحہ کرتی رہتی ہیں حدیث شریف میں ہے لعن اللّٰہ النائحۃ والمسمعۃ کہ اللہ کی لعنت ہو نوحہ کرنے والی پر اور اس کا نوحہ سننے والی پر (رواہ ابو داؤد) حضور اقدس ﷺ نے نوحہ کرنے والی پر لعنت فرمائی اور ساتھ ہی نوحہ سننے والی پر بھی (کیونکہ نوحہ کرنے والی کا نوحہ سننے جو عورتیں جمع ہوں وہ بھی نوحہ کا سبب بنتی ہیں۔ عموماً نوحہ کرنے والی عورت تنہائی میں نوحہ نہیں کرتی) صحیح مسلم ص 303 میں ہے کہ نوحہ کرنے والی موت سے پہلے توبہ نہ کرے گی تو قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے بدن پر ایک کرتہ قطران کا ہوگا اور ایک کرتہ کھجلی کا ہوگا۔ عرب میں قطران ایک درخت کا پانی ہوتا تھا جس کو کھجلی والے بدن پر لگاتے تھے اس کی خاصیت تیزاب جیسی تھی اس سے کھجلی جل جاتی تھی اور کھجلی جل کر آرام ہوجاتا نوحہ کرنے والی کے جسم پر قیامت کے دن اول تو کھجلی مسلط کی جائے گی۔ گویا کرتے کی جگہ کھجلی کا لباس ہوگا پھر اس کھجلی پر قطران لگا ہوا ہوگا جس کی وجہ سے مزید تکلیف ہوگی۔ دنیا میں رواج ہے کہ جب کسی کو ایگزیما اور داد ہوجاتا ہے تو اس پر تیزاب لگا دیتے ہیں۔ اس سے جو تکلیف ہوتی ہے بیان سے باہر ہے اور یہ تکلیف دنیا میں ہوتی ہے آخرت کی تکلیف دنیا کی تکلیفوں سے کہیں زیادہ ہے (العیاذ باللہ) پھر دنیا میں جو تیزاب لگاتے ہو اس سے ایگزیما اور داداچھا ہوجاتا ہے لیکن آخرت میں چونکہ عذاب دینا مقصود ہوگا۔ اس لیے قطران لگا ہوا ہونے سے کھجلی نہیں جائے گی بلکہ اور شدید تکلیف ہوتی رہے گی۔ فائدہ : (4) (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) کے ساتھ ایک اور دعا بھی حدیث شریف میں وار ہوئی ہے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جس کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچ جائے اور وہ اللہ جل شانہ کے فرمان کے مطابق (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھے اور ساتھ ہی یہ بھی پڑھے : (اَللّٰھُمَّ اٰجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْھَا) ” اے اللہ میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور اس کے بدلہ مجھے اس سے بہتر عنایت فرما۔ “ تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔ جب ابو سلمہ کی وفات ہوگئی تو میں نے (دل میں) کہا کہ ابو سلمہ سے بہتر کون سا مسلمان ہوگا ؟ اس کا گھرانہ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی طرف ہجرت کی۔ پھر بھی میں نے مذکورہ دعا پڑھ لی لہٰذا مجھے اللہ تعالیٰ نے ابو سلمہ کے بدلہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی عطا فرما دی۔ (یعنی آپ سے نکاح ہوگیا اور آپ ابو سلمہ سے بہتر ہیں۔ (صحیح مسلم ص 300 ج 1) فائدہ : (5) یہاں تک جو متعدد احادیث کا ترجمہ لکھا گیا اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے دنیاوی تکالیف اور مصائب، امراض و آلام سب نعمت ہیں ان کے ذریعہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔ درجات بلند ہوتے ہیں اور گناہوں کا کفارہ ہوجانے کی وجہ سے برزخ اور روز قیامت کے عذاب سے حفاظت ہوجاتی ہے۔ مومن بندوں پر لازم ہے کہ صبر و شکر کے ساتھ ہر حال کو برداشت کرتے چلیں اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی بہت زیادہ پختہ امید رکھیں اور یقین جانیں کہ ہمارے لیے صحت و عافیت بھی خیر ہے اور دکھ تکلیف بھی بہتر ہے۔ اصل تکلیف تو کافر کی تکلیف ہے۔ اسے تکلیف بھی پہنچی اور ثواب بھی نہ ملا۔ مومن کی تکلیف، تکلیف نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مصیبت و تکلیف اور مرض کی دعا کیا کریں یا شفاء کی دعانہ مانگیں۔ کیونکہ جس طرح صبر میں ثواب ہے۔ شکر میں بھی ثواب ہے۔ سوال تو عافیت ہی کا کریں اور کرتے رہیں اور تکلیف پہنچ جائے تو صبر کریں۔ فائدہ : (6) بہت سے لوگ جو آرام و راحت اور دکھ تکلیف کی حکمت اور اس بارے میں قانون الٰہی کو نہیں جانتے بہت سی بےتکی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ جہان کی ساری مصیبتیں مسلمانوں پر ہی آپڑی ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ کافروں کو محلات اور قصور اور مسلمانوں کو صرف وعدہ حور، کبھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیروں کو خوب نوازا ہے اور اپنوں کو فقر و فاقہ اور دوسری مصیبتوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ جاہل اتنی بات نہیں جانتے کہ اپنا ہونے ہی کی وجہ سے تو مسلمانوں کو تکلیفوں میں مبتلا فرمایا جاتا ہے تاکہ ان کے گناہ معاف ہوں۔ درجات بلند ہوں۔ اور آخرت میں گناہوں پر سزا نہ ہو۔ درحقیقت یہ بہت بڑی مہربانی ہے کہ دنیا کی تھوڑی بہت تکلیف میں مبتلا فرما کر آخرت کے شدید عذاب سے بچا دیا جاتا ہے اور کافروں کو چونکہ آخرت میں کوئی نعمت نہیں ملنی۔ کوئی آرام نصیب نہیں ہونا بلکہ ان کے لیے صرف عذاب ہی عذاب ہے۔ اس لیے ان کو دنیا زیادہ دے دی جاتی ہے اور ان پر مصیبتیں کم آتی ہیں۔ اگر کسی کافر نے خدمت خلق وغیرہ کا کوئی کام کیا تو اس کا عوض اس دنیا میں دے دیا جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں اسے ذراسی بھی خیر اور معمولی سا بھی آرام نہ ملے گا۔ اور ابد الآباد تک دوزخ میں رہے گا۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر ؓ سے مروی ہے۔ انہوں نے بیان فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ چٹائی اور آپ کے جسم کے درمیان کوئی بستر نہیں ہے۔ چٹائی کی بناوٹ نے آپ کے مبارک پہلوؤں میں نشان ڈال دئیے ہیں۔ آپ ایسے تکیہ سے ٹیک لگائے ہوئے ہیں جو چمڑے کا ہے۔ جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو خوب مال دیدے۔ کیونکہ فارس اور روم کے لوگوں کو وسعت دی گئی ہے اور وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابن خطاب کیا تم (ابھی تک) اسی (سوچ بچار) میں پڑے ہو (تمہیں معلوم نہیں) کہ ان لوگوں کو عمدہ چیزیں اس دنیا میں دے دی گئی ہیں۔ (آخرت میں ان کو کچھ نہیں ملنا) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یوں فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 447)
Top