Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 156
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ جو اِذَآ : جب اَصَابَتْهُمْ : پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت قَالُوْٓا : وہ کہیں اِنَّا لِلّٰهِ : ہم اللہ کے لیے وَاِنَّآ : اور ہم اِلَيْهِ : اس کی طرف رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جن کی صفت یہ ہے کہ جب پہنچے ان کو کوئی مصیبت تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
صابرین کی ایک خاص صفت : یہ فرمانے کے بعد کہ ہم تم کو ضرور ضرور آزمائیں گے۔ صابرین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ (وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ) (صبر کرنے والوں کو بشارت دے دو ) پھر ان کی صفت بیان فرمائی (الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) (وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) کہتے ہیں۔ ) یہ کلمہ بہت سے حقائق کو اپنے اندر سموئے ہوئے اور اس میں بہت بڑی تسلی ہے۔ اس میں اول تو زبان اور دل سے اس بات کا اقرار ہے کہ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں جب ہم اللہ ہی کے بندے ہیں۔ اس کی مخلوق ہیں اس کے مملوک ہیں تو ہمیں پوری طرح اپنے خالق ومالک کے فیصلے پر راضی ہونا ضروری ہے۔ ہم بھی اللہ ہی کے ہیں اور جو جان و مال اس نے لے لیا وہ بھی اللہ ہی کا ہے۔ اس نے جو کچھ کیا اپنی مخلوق اور مملوک میں تصرف کیا۔ کسی کو بولنے، اعتراض کرنے، دل اور زبان سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ایک صاحبزادی کا بچہ جان کنی کے عالم میں تھا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں خبر بھیجی اور تشریف لانے کی گزارش کی۔ آپ نے ان کو سلام کہلوایا اور فرمایا (اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلہٗ مَا اَعْطٰی وَ کُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ ) (کہ بلاشبہ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ اس نے لیا اور اس کے لیے ہے جو اس نے عطا فرمایا اور ہر ایک کی اس کے نزدیک اجل مقرر ہے۔ لہٰذا صبر کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے۔ (بخاری ص 171 ج 2) دوسرے اس بات کا اعلان اور اقرار ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچیں گے تو ہم کو ہر ضائع اور فوت شدہ چیز کا ثواب مل جائے گا۔ اور یہ ثواب دنیا کی حقیر چیزوں سے کہیں اعلیٰ و افضل ہے جن کے چلے جانے پر رنج ہوتا ہے۔ اپنے اعزہ و اقرباء آل اولاد جو فوت ہوگئے ان سے بھی عارضی جدائی ہے جہاں وہ گئے وہیں ہم کو جانا ہے۔ وہاں دارالنعیم میں انشاء اللہ تعالیٰ ان سے ملاقاتیں ہوجائیں گی۔ سنن ترمذی ص 166 ج 1 میں ہے کہ جب بندہ کا کوئی بچہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ تم نے میرے بندہ کے بچے کو قبض کرلیا وہ کہتے ہیں کہ ہاں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے اس کے دل کے پھل کو قبض کرلیا وہ کہتے ہیں کہ ہاں ! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندہ نے کیا کہا۔ وہ عرض کرتے ہیں کہ اس نے آپ کی تعریف کی اور ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھا اس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندہ کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھ دو ۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ مسلمان مرد یا عورت کو جو بھی تکلیف پہنچ جائے اور اس کو بعد میں یاد کرے اگرچہ اس کو عرصہ دراز گزر چکاہو اور اس وقت پھر ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو پھر اسی جیسا اجر عطا فرماتے ہیں جیسا کہ اس دن عطا فرمایا تھا جس دن اس کو مصیبت پہنچی تھی۔ (رواہ احمد و البیہقی فی شعب الایمان کمافی المشکوٰۃ ص 53 ج 1) حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تب بھی ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھے۔ کیونکہ یہ بھی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت ہے۔ (مشکوٰۃ عن شعب الایمان) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے مصیبت کے وقت ( اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ) پڑھا تو اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کی تلافی فرمادیں گے اور اس کی آخرت اچھی کریں گے اور اسے ضائع شدہ چیز کے بدلہ اچھی چیز عطا فرمائیں گے۔ (درمنثور)
Top