Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل میری ان نعمتوں کو یاد کرو جن کا میں نے تم پر انعام کیا اور اس بات کو بھی کہ میں نے تم کو جہانوں پر فضیلت دی
بنی اسرائیل کو نعمتوں کی مکرریاد دہانی یہ دونوں آیتیں سورة بقرہ کے چھٹے رکوع کے شروع میں گزر چکی ہیں۔ دونوں آیتوں میں وہاں ایک طرح کی تمہید تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے اجمالی طور پر بنی اسرائیل کو اپنے انعامات یاد دلائے تھے اور انہیں آخرت کے عذاب سے ڈرایا تھا، اس کے بعد تفصیلی طور پر بعض نعمتوں کا تذکرہ فرمایا اور ان کی حرکتوں اور بد عملیوں اور جھوٹی آرزوؤں کا اور بچھڑے کی پرستش کرنے اور جادو کے پیچھے لگنے اور فرشتوں کو اپنا دشمن بتانے اور حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دبی زبان سے راعِنَا کہنے اور اس کے برے معنی مراد لینے کا اور بعض دیگر امور کا تفصیلی بیان ہوا۔ بیان کے ختم پر اب یہاں پھر انہیں دونوں آیتوں کو دہرایا جو بطور تمہید شروع میں مذکور تھیں۔ البتہ دوسری آیت میں ذرا سا لفظی فرق ہے اولاً وآخراً ان کو اجمالی طور پر اپنے انعامات یاد دلا کر ایمان اور اعمال صالحہ میں لگنے کی طرف متوجہ فرمایا اور قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرایا اگر انسان اللہ کی نعمتوں کو سامنے رکھے کہ اللہ نے مجھ پر کیا کیا انعامات فرمائے اور اپنے نفس کا محاسبہ بھی کرے کہ میں نے ان کے مقابلے میں کیا کیا اور ساتھ ہی فکر آخرت بھی ہو تو ایسا شخص ایمان صالح سے دور نہیں رہ سکتا لیکن یہودی ایمان سے بھی گئے اور اعمال صالحہ سے بھی گئے۔
Top