Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح ہی کرنے والے ہیں۔
منافقوں کے دعوے اور ان کا طریق کار ان آیات میں منافقین کے بعض دعوے نفل فرمائے ہیں۔ اور ان کا طریقہء کار ذکر فرمایا ہے اور وہ یہ کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے تھے کہ اجی ہم کہاں فساد کہاں ؟ ہمارا کام تو اصلاح کرنا ہی ہے۔ ان کی تردید میں فرمایا کہ خبر دار بلاشبہ یہ لوگ فسادی ہی ہیں لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے، جس فساد میں یہ لوگ مبتلا تھے اس میں کئی طرح سے حصہ لیتے تھے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرتے تھے۔ اور دشمنان اسلام کو لڑائیوں پر آمادہ کرتے تھے اور مسلمانوں کے بھید دشمنوں تک پہنچاتے تھے۔ اور جو لوگ مسلمان ہونے کا ارادہ کرتے ان کو اسلام سے روکنے کا سبب بنتے تھے۔ اور مسلمانوں کا مذاق بناتے تھے فساد کے کاموں میں مبتلا ہوتے ہوئے ان کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم تو اصلاح ہی کرنے والے ہیں۔ مفسر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم دونوں فریق یعنی مسلمین اور کافرین کی مدارات کرتے ہیں۔ دونوں میں جوڑ لگانے اور دونوں کے تعلقات استوار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ (و کذا نقلہ السیوطی عن ابن عباس فی الدر) انہوں نے اپنے نفاق کو اصلاح سے تعبیر کیا، ان کا دعویٰ جھوٹ تھا۔ دونوں فریق میں سے ہر فریق ان کو اپنی جماعت سے علیحدہ سمجھتا تھا۔ (لاَ اِلٰی ھٰؤلاَءِ وَلَا اِلٰی ھٰؤْلَاءِ ) جس شخص سے دونوں جانب میں سے کوئی بھی مطمئن نہ ہو وہ کیا جوڑ بٹھا سکتا ہے۔ پھر ایمان اور کفر میں جوڑ بٹھانے کا ارادہ کرنا بھی مزید کفر ہے۔ ایمان اور کفر کا جوڑ بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا ان کا دعویٰ اصلاح صرف دھوکہ ہے اور وہ اس کے نتیجہ سے ناواقف ہیں، ان کے عمل سے جو فساد پھیلتا ہے اس کو نہیں سمجھتے اور آخرت میں جو اس کا وبال ان پر پڑے گا اس کو نہیں جانتے۔ اور جب ان سے کہا جاتا تھا کہ ایمان لے آؤ یعنی دین اسلام کو سچے دل سے قبول کرو تو وہ کہتے تھے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو بیوقوف ہیں ہم بیوقوفی کا کام کیوں کریں۔ حضرات صحابہ اور خاص کر انصار کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ ان کو انہوں نے بیوقوف بنایا۔ اور گویا اپنے سمجھدار اور ہوشیار ہونے کا دعویٰ کیا۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خود بیوقوف ہیں، لیکن جانتے نہیں ہیں۔ جس نے ایمان کھویا کفر اختیار کیا اسلام کو نقصان پہنچایا اپنی آخرت برباد کی اور دنیا میں مومنین اور کافرین دونوں کے نزدیک مطعون اور قابل ملامت ہوا، اس کی بیوقوفی میں کیا شک ہے ؟ منافقین کا یہ طریقہ تھا کہ مومنین سے کہتے تھے کہ ہم تو ایمان لا چکے ہیں اور جب تنہائیوں میں اپنے شیطانوں یعنی کفر کے سرغنوں کے پاس جاتے تھے جو کھلے کافر تھے تو ان سے کہتے تھے کہ بلاشبہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ جو ہم مسلمانوں سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یہ تو ہمارا مذاق ہے۔ ان کا مذاق بنانے کے لیے بطور دل لگی ہم ان کے سامنے ان کی جماعت میں ہونے کا اقرار کرلیتے ہیں لیکن اندر سے اور دل سے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ (قال ابن عباس کان رجال من الیھود اذا لقوا اصحاب النبی ﷺ او بعضھم قالوا انّا علی دینکم و اذا خلوا الی شیاطینھم و ھم اخوانھم قانلوا انّا معکم ای علی مثل ما انتم علیہ انما نحن مستھزؤن ساخرون۔ (درمنثور ج 1 ص 31) انہوں نے یہ جو کہا کہ ہم مسلمانوں کا مذاق بناتے ہیں اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کا مذاق بناتا ہے یعنی وہ ان کے اس استہزاء اور مذاق بنانے کا بدلہ دے گا، انہوں نے استہزاء کر کے مسلمانوں کے ساتھ جو حقارت کا معاملہ کیا، اس کی پاداش میں آخرت میں ذلیل اور رسوا ہوں گے۔ اور ان کے استہزاء کا وبال انہیں پر پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے رہا ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت فائدہ میں ہیں حالانکہ وہ دوزخ کی طرف جا رہے ہیں یہاں دنیا میں مسلمانوں کی طرف اشارے کرتے ہیں زبانوں سے کن اکھیوں سے ان کا مذاق بناتے ہیں۔ آخرت میں مومنین ان پر ہنسیں گے۔ (فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْکُفَّارِ یَضْحَکُوْنَ ) سورة حدید کے دوسرے رکوع میں منافقین کے پیش آنے والے ایک استہزاء کا ذکر ہے۔ (فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ ) جس کی تفسیر انشاء اللہ اپنی جگہ پر بیان ہوگی۔ دنیا میں منافقین اپنے مال اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہیں ان کا سمجھا غلط ہے ان کا مال اور جائیداد ان کو گمراہی اور سرکشی میں لگائے ہوئے ہے اور وہ اسی گمراہی میں حیران اور سرگرداں ہو کر بھٹک رہے ہیں۔ دنیاوی مال اور جائیداد سے دھوکہ کھانا اور یہ سمجھنا کہ کفر کے ہوتے ہوئے یہ ہمارے لیے مفید اور نافع ہے بہت بڑا دھوکہ ہے سورة مومنون میں فرمایا : (اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لّاَ یَشْعُرُوْنَ ) ” کیا یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال اور بیٹے دیئے چلے جاتے ہیں (اس طرح) ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچا رہے ہیں (بات یوں نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔ “
Top