Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 90
وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًاۙ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے لَنْ نُّؤْمِنَ : ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے لَكَ : تجھ پر حَتّٰى : یہانتک کہ تَفْجُرَ : تو رواں کردے لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَرْضِ : زمین سے يَنْۢبُوْعًا : کوئی چشمہ
'' اور ان لوگوں نے کہا کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں
قریش مکہ کی ہٹ دھرمی اور فرمائشی معجزت کا مطالبہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت کا کام شروع کیا اور مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کے لیے فرمایا تو وہ دشمن ہوگئے، حق قبول کرنے سے دور بھاگتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو طرح طرح سے ستاتے تھے کٹ حجتی پر تلے ہوئے تھے۔ الٹے الٹے سوال کرتے اور بےتکی فرمائشیں کرتے تھے، جن میں سے چند فرمائشیں آیت بالا میں مذکور ہیں صاحب معالم التنزیل نے لکھا ہے کہ قریش مکہ کے چند افراد جمع ہوئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یہ جو آپ نے نئی باتیں شروع کی ہیں اگر ان کے ذریعہ آپ کو مال طلب کرنا مقصود ہے تو بتا دیجیے ہم آپ کو مال دیدیں گے آپ ہم میں سب سے بڑے مالدار ہوجائیں گے اور اگر بڑا بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بادشاہ بنالیتے ہیں اور اگر بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو بادشاہ بنالیتے ہیں اور اگر آپ کو کوئی جنون ہوگیا ہے تو وہ بتا دیجیے ہم اپنے اموال خرچ کرکے آپ کا علاج کرا دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے۔ مجھے اللہ نے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کے قبول کرنے پر بشارتیں سناؤں، اور مخالفت کے انجام سے ڈراؤں، میں نے تمہیں پہنچا دیا اور خیر خواہی کے ساتھ سمجھا دیا اگر تم اس کو قبول کرتے ہو تو یہ دنیا و آخرت میں تمہارا نصیب ہوگا اور اگر اس کو نہیں مانتے تو میں صبر کرتا ہوں یہاں تک کہ اللہ پاک میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمائیں۔ وہ لوگ کہنے لگے تو پھر ایسا کرو کہ اپنے رب سے سوال کرو کہ یہ پہاڑ مکہ کی سرزمین سے ہٹ جائیں جن کی وجہ سے ہماری جگہ تنگ ہو رہی ہے اور ہمارے شہروں میں وسعت ہوجائے۔ جیسے شام و عراق میں نہریں ہیں اس طرح کی نہریں ہمارے شہر میں جاری ہوجائیں۔ اور ہمارے مردہ باپ دادوں کو قبروں سے اٹھاؤ جن میں سے قصی بن کلاب بھی ہو۔ یہ لوگ قبروں سے اٹھ کر آپ کی تصدیق کردیں تو ہم مان لیں گے آپ نے فرمایا کہ یہ میرا کام نہیں، میں ایسا کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، مانتے ہو تو مان لو اور نہیں مانتے تو میں صبر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ ہوگا ہوجائے گا۔ وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں کرتے تو اپنے رب سے یہ سوال کیجیے کہ آپ کی تصدیق کے لیے ایک فرشتہ بھیج دے۔ اور یہ سوال کرو کہ آپ کو باغات اور محلات دیدے اور سونے چاندی کے خزانے دیدے جن کی وجہ سے آپ غنی ہوجائیں اور یہ آپ کی ظاہری حالت (جو مال کی کمی کی وجہ سے ہے) نہ رہے آپ تو ہماری طرح بازاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور ہماری طرح معاش تلاش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میرا یہ کام نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ کہنے لگے اچھا تم ایسا کرو کہ ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو ۔ آپ کہتے ہیں کہ اللہ کو اس پر قدرت ہے اگر قدرت ہے تو اس کا مظاہرہ ہوجائے۔ آپ نے فرمایا اللہ چاہے تو وہ تمہارے ساتھ ایسا معاملہ کرسکتا ہے، اس پر ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ ہم آپ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپ اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو ہمارے سامنے لائیں۔ ان باتوں کے بعد آپ وہاں سے کھڑے ہوگئے، انہیں میں آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبد المطلب کا بیٹا عبد اللہ بن ابی امیہ بھی تھا۔ وہ بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا اے محمد ﷺ آپ کی قوم نے کئی باتیں پیش کیں آپ نے کسی کو قبول نہ کیا اب آپ ایسا کریں کہ ایک سیڑھی لیں اور میرے سامنے آسمان پر چڑھ جائیں اور ایک نوشتہ لکھی ہوئی کتاب بھی لائیں اور آپ کے ساتھ فرشتے بھی آئیں جو آپ کی تصدیق کریں۔ آپ نے ایسا کردیا تو میں آپ کی تصدیق کرلوں گا۔ یہ باتیں سن کر رسول اللہ ﷺ غمگین ہوئے اور اسی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیات بالا نازل فرمائیں اور آپ کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو جواب میں فرما دیں (سُبْحَانَ رَبِّیْ ) (کہ میرا رب پاک ہے تمہارے طلب کردہ معجزات سے عاجز نہیں ہے) اللہ چاہے تو فرمائشی معجزات ظاہر فرما دے لیکن وہ کسی کا پابند نہیں ہے جو لوگوں کے لیے فرمائشی معجزات ظاہر فرمائے۔
Top