Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور آپ یوں کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل چلا گیا بلاشبہ باطل جانے ہی والا ہے۔
دوسری آیت میں فتح مکہ کا ذکر ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ اس وقت بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ کی ایک ٹہنی سے گراتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے۔ (جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا) اور یہ بھی پڑھتے جاتے تھے۔ (جَآءَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ ) سورة سبا کی آیت ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ حق کے آنے اور باطل کے چلے جانے کا اعلان کردیں۔ چناچہ آپ نے بتوں کو گراتے ہوئے سورة بنی اسرائیل کی آیت پر بھی عمل کیا اور سورة سبا کی آیت پر بھی۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ ہم جو قرآن میں نازل کرتے ہیں یہ مومنین کے لیے سراپا شفاء اور رحمت ہے، اور رہے ظالم جو حق پر بھی ظلم کرتے ہیں (اسے قبول نہیں کرتے) اور اپنی جانوں پر بھی ظلم کرتے ہیں تو یہ لوگ حق سے منہ موڑنے کی وجہ سے اپنے کو عذاب آخرت کے لیے تیار کرتے ہیں ان کا جو طریقہ ہے وہ خود ان کے حق میں بربادی اور خسارے کا سبب ہے۔ یہی قرآن جو اہل ایمان کے لیے شفاء اور رحمت ہے جو لوگ انکار کرتے ہیں ان کے لیے یہی قرآن خسارہ اور بربادی کا سبب بن جاتا ہے اور جیسے جیسے کوئی آیت نازل ہوتی ہے اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اپنے خسارہ میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ قال صاحب الروح واسناد الزیادۃ المذکورۃ الی القرآن مع انھم المزادون فی ذلک لسوء صنیعھم باعتبار کونہ سببا لذلک۔
Top