Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 68
اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ وَكِیْلًاۙ
اَفَاَمِنْتُمْ : سو کیا تم نڈر ہوگئے ہو اَنْ : کہ يَّخْسِفَ : دھنسا دے بِكُمْ : تمہیں جَانِبَ الْبَرِّ : خشکی کی طرف اَوْ : یا يُرْسِلَ : وہ بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر حَاصِبًا : پتھر برسانے والی ہو ثُمَّ : پھر لَا تَجِدُوْا : تم نہ پاؤ لَكُمْ : اپنے لیے وَكِيْلًا : کوئی کارساز
کیا تم اس بات سے بےفکر ہو کہ وہ تمہیں خشکی کی جانب میں لاکر زمین میں دھنسا دے۔ یا تم پہ کوئی سخت آندھی بھیج دے جو کنکر برسانے والی ہو پھر تم اپنے لیے کسی کو کارساز نہ پاؤ گے
اس کے بعد انسانوں کو تنبیہ فرمائی کہ سمندر کی مصیبت سے نکل کر جو تم مطمئن ہوگئے اور باطل معبودوں کے پھر سے پجاری بن گئے ہو تو کیا تم یہ سمجھ کر مطمئن ہوگئے ہو کہ خشکی میں اللہ تعالیٰ تمہیں ہلاک نہیں کرسکتا۔ سمندر سے باسلامت نکل کر پھر شرکیہ کاموں میں لگ جانے سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ اب تم بالکل بےخوف ہوگئے تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔ یہ تمہاری بیوقوفی ہے اللہ تعالیٰ کو جیسے سمندر میں غرق کردینے کی قدرت ہے۔ ایسے ہی یہ بھی قدرت ہے کہ وہ تمہیں خشکی میں لاکر زمین میں دھنسا دے۔ اور یہ بھی قدرت ہے کہ تم پر ایسی سخت ہوا بھیجے جو پتھر برسانے والی ہو اور اسے یہ بھی قدرت ہے کہ تمہیں دوبارہ سمندر میں واپس کردے پھر وہ وہاں تمہارے اوپر ہوا کا سخت طوفان بھیج کر تمہارے کفر کی وجہ سے تمہیں غرق کردے۔ وہ تمہیں ہلاک کرے تو تم اس کے سوا کوئی کارساز نہیں پاسکتے۔ (ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ وَکِیْلًا) اور وہ ہلاک کردے تو کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کا پیچھا کرے یعنی اس کی گرفت کرسکے اور اس سے بدلہ لے سکے (ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہٖ تَبِیْعًا) لہٰذا ہمیشہ کے لیے شرک کو چھوڑ دو اور اپنے خالق سے ڈرتے رہو اور دین توحید کو اختیار کرلو۔ قولہ تعالیٰ (ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ عَلَیْنَا بِہٖ تَبِیْعًا۔ ای نصیرا کما روی عن ابن عباس او ثائراً یطلبنا بما فعلنا انتصار امنا أو درکا اوللثأر من جھتنا فھو کقولہ تعالیٰ فَسَوَّاھَا وَلاَ یَخَافُ عُقْبَاھَا کما روی عن مجاھد) (روح المعانی)
Top