Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 61
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ
وَاِذْ : اور جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس قَالَ : اس نے کہا ءَاَسْجُدُ : کیا میں سجدہ کروں لِمَنْ : اس کو جسے خَلَقْتَ : تونے پیدا کیا طِيْنًا : مٹی سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا، وہ کہنے لگا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے آپ نے کیچڑ سے بنایا ہے
حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم سننے پر ابلیس کا جواب دینا کیا میں اسے سجدہ کروں جو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ؟ پھر بنی آدم کو بہکانے کا عزم ظاہر کرنا، اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ جن پر تیرا قابو چل سکے ان پر قابو کرلینا اللہ تعالیٰ نے جنات کو انسان سے پہلے پیدا فرمایا تھا جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی تھی اور آدم کو (جو سارے انسانوں کے باپ ہیں) مٹی سے پیدا فرمایا ابلیس جنات میں سے تھا یہ عالم بالا میں فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اور عبادت الٰہی اس کا شغل تھا اللہ تعالیٰ شانہ نے آدم (علیہ السلام) میں روح ڈالنے کے بعد تمام فرشتوں کو اور ابلیس کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں (یہ سجدہ تعظیمی تھا جو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت میں منسوخ ہے) حکم سن کر سارے فرشتوں نے تو آدم کو سجدہ کرلیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا جب اللہ تعالیٰ نے سوال فرمایا (مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ) (کہ تجھے سجدہ سے کیا چیز مانع تھی جب میں نے تجھے سجدہ کا حکم دیا) اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم ہی کو غلط بتادیا اور اعتراض کر بیٹھا، کہنے لگا کہ مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا میں اس سے افضل ہوں آپ نے اسے مجھ پر فضیلت دیدی اسے مسجود بنا دیا اور مجھے حکم دیدیا کہ میں اسے سجدہ کروں افضل اپنے کمتر کو سجدہ کیوں کرے آپ کا یہ حکم دینا ہی حکمت کے خلاف ہے۔ ابلیس کی حکم عدولی بےادبی اور بدتمیزی کی وجہ سے اسے ملعون قرار دیدیا اور عالم بالا سے ذلت کے ساتھ نکالا گیا (جس کی تفصیل سورة اعراف رکوع 2 میں اور سورة ص رکوع 5 میں مذکور ہے۔ ) جب شیطان مردود ہوگیا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے اول تو قیامت تک زندہ رہنے کی مہلت طلب کی اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے ایک وقت معلوم کے دن تک مہلت دیدی اب تو وہ اللہ کی عزت کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا بجز آپ کے ان بندوں کے جو منتخب کرلیے گئے ہوں (یہ تفصیل سورة ص میں ہے) یہاں سورة بنی اسرائیل میں یوں ہے کہ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کو حکمت کے خلاف بتانے کے بعد یوں کہا (لَءِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا) (آپ نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیدی تو میں اس کی ساری ذریت کو بجز تھوڑے سے افراد کے اپنے قابو میں کرلوں گا) یہ وہی تھوڑے سے افراد ہیں جن کا استثناء سورة حجر اور سورة ص میں مذکور ہے ابلیس نے (اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ) کہہ کر استثناء کردیا تھا اس نے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور منتخب بندوں کو گمراہ کرنے سے اسی وقت ہار مان لی تھی جب اس نے بنی آدم کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی تھی ابلیس کو یہ معلوم تھا کہ یہ نئی مخلوق جو پیدا کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں خلافت دینے کے لیے وجود بخشا ہے لہٰذا ان میں ایسے افراد ضرور ہونگے جو کار خلافت سنبھالیں گے اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہونگے۔ جب شیطان نے بنی آدم کو بہکانے کی قسم کھالی تو اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ جا اپنی کوششیں کرلینا جو لوگ تیرے پیچھے لگیں گے وہ اور تو سب کو جہنم میں داخل کردوں گا سورة ص میں فرمایا (لَاَمْلَءَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (یہ بات ضروری ہے کہ تو اور تیرے پیچھے چلنے والے سب کو دوزخ میں بھر دوں گا) اور یہاں سورة اسراء میں فرمایا (فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَآءً مَّوْفُوْرًا) (تو اور جو لوگ تیرا اتباع کریں سب کی سزا جہنم ہے یہ جزا پوری اور بھرپور ہوگی)
Top