Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 58
وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِیْدًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ قَرْيَةٍ : کوئی بستی اِلَّا : مگر نَحْنُ : ہم مُهْلِكُوْهَا : اسے ہلاک کرنے والے قَبْلَ : پہلے يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن اَوْ : یا مُعَذِّبُوْهَا : اسے عذاب دینے والے عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کردیں یا اسے سخت عذاب نہ دیں یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے
اس کے بعد فرمایا (وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا عَذَابًا شَدِیْدًا) (اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم قیامت سے پہلے ہلاک نہ کردیں یا اسے سخت عذاب نہ دیں) آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ قیامت سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک ہونگی یعنی ان بستیوں کے رہنے والے اپنی اپنی موت مرجائیں گے اور بہت سی بستیاں اسی طرح ہلاک ہوں گی کہ ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا چاہے قتل و خون سے ہلاک ہوں اور خواہ مختلف قسم کی مصیبتوں اور بلاؤں میں مبتلا ہوکر۔ قیامت کے دن صور پھونکے جانے سے جو ہلاک ہوں گی وہ بھی اسی ذیل میں آگئیں۔ لہٰذا یہ بات عمومی طور پر اور مجموعی حیثیت سے ثابت ہوگئی کہ کوئی بھی بستی ایسی نہیں ہے جو بلاعذاب کے یا عذاب کے ذریعے ہلاک نہ ہو (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ) میں بھی یہ مضمون ہے کہ ہر جان کو موت آجانا لازم ہے موت تو سب کو آنی ہی ہے البتہ اہل کفر و اہل معصیت کو بعض مرتبہ عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ہلاک تو ساری بستیاں ہوں گی البتہ بعض بستیوں کی ہلاکت کا خصوصی تذکرہ بھی احادیث شریفہ میں آیا ہے ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حبشہ والوں کو چھوڑے رکھو جب تک کہ وہ تمہیں چھوڑے رہیں کیونکہ کعبہ کا خزانہ حبشہ ہی کا ایک شخص نکالے گا جس کی چھوٹی چھوٹی پنڈلیاں ہوں گی۔ (رواہ ابوداؤد باب ذکر الحبشۃ کتاب الملاحم) اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا گویا میں اس کالے شخص کو دیکھ رہا ہوں جس کی ٹانگیں کجی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہوں گے کہ وہ کعبہ شریف کا ایک ایک پتھر کرکے اکھاڑ رہا ہے نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ بستیوں میں جو سب سے آخری بستی ویران ہوگی وہ مدینہ منورہ ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 240) حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ لوگ مدینہ منورہ کو بہت اچھی حالت میں چھوڑ دیں گے (اس میں کوئی بھی نہ رہے گا) اور اس میں صرف جانور اور درندے رہ جائیں گے جو رزق کی تلاش کرتے پھرتے ہونگے اور سب سے آخر میں بنی مزینہ کے دو چرواہے لائے جائیں گے وہ اپنی بکریاں لے کر چیخ رہے ہوں گے ان کا یہ سفر مدینہ کے ارادہ سے ہوگا۔ مدینہ میں آئیں گے تو اسے خالی میدان پائیں گے یہاں تک کہ جب ثنیۃ الوداع میں پہنچیں گے تو چہرے کے بل گرپڑیں گے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ وہ اس میں درندوں کو پائیں گے۔ (صحیح بخاری ص 252) شارح مسلم علامہ نووی ؓ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ آخری زمانہ میں قرب قیامت میں ہوگا پھر فرمایا (کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا) (یہ بات کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے) یعنی یہ امر طے شدہ امور میں سے ہے اس کا وقوع ہونا ہی ہونا ہے اس میں تخلف نہیں ہوسکتا۔
Top