Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے پاس نہ جاؤ بلاشبہ وہ بڑی بےحیائی اور بری راہ ہے
دوسرا حکم یوں دیا (وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًط وَ سَآءَ سَبِیْلًا) (اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بےحیائی اور بری راہ ہے) اس میں زنا کی ممانعت فرمائی اور یوں فرمایا کہ اس کے پاس بھی مت پھٹکو اور اسے بےحیائی اور بری راہ سے تعبیر فرمایا زنا ایسا برا عمل ہے اور ایسی لعنت کی چیز ہے جو کبھی کسی نبی کی شریعت میں حلال نہ تھی بلکہ اسلام کے علاوہ جو دوسرے ادیان ہیں مذہبی طور پر وہ بھی اسے ممنوع سمجھتے ہیں گو نفس و شیطان کے ابھار کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ آج جب کہ یورپ اور امریکہ میں بےحیائی کو ہنر اور حیا کو عیب سمجھا جانے لگا ہے وہاں زنا کاری بہت عام ہوچکی ہے جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں وہ تو حیا کی ہر سرحد پار کرچکے ہیں اور چونکہ ان کے پادری ہر اتوار کو حاضرین کے ہر گناہ کو معاف کردیتے ہیں اس لیے خوب دھڑلے سے عوام و خواص زنا کرتے ہیں، جو مسلمان وہاں جا کر بستے ہیں وہ بھی ان بےحیائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں وہاں رواج کی وجہ سے اتنی زیادہ بےحیائی پھیل چکی ہے کہ بیویاں ہوتے ہوئے زنا کاری میں مبتلا ہوتے ہیں اور شوہر کی رضا مندی سے ایک شخص کی بیوی دوسرے شخص کے ساتھ رات گزارتی ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں ایسے لوگوں پر گذرا جن کی کھالیں آگ کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں۔ میں نے کہا اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو زنا کرنے کے لیے زینت اختیار کرتے ہیں پھر میں ایسے بدبودار گڑھے پر گزرا جس میں بہت سخت آوازیں آرہی تھیں میں نے کہا جبرائیل یہ کون ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو زناکاری کے لیے بنتی سنورتی ہیں اور وہ کام کرتی ہیں جو ان کے لیے حلال نہیں۔ (الترغیب والترہیب ص 511 ج 3) اس گناہ سے بچانے کے لیے شریعت مطہرہ نے بد نظری تک سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں، اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور اس گناہ کی دنیاوی سزا یہ رکھی ہے کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرلے تو اس کو سو کوڑے مارے جائیں اور شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرلے تو اس کو سنگسار کیا جائے یعنی پتھر مار مار کر ہلاک کردیا جائے دنیا میں جو مصیبتیں آرہی ہیں ان کا بہت بڑا سبب بڑے گناہ بھی ہیں اور ان گناہوں میں زنا کاری کا عام ہونا بھی ہے۔ حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس قوم میں زنا کاری پھیل جائے گی قحط بھیج کر ان کی گرفت کی جائے گی اور جن لوگوں میں رشوت کا لین دین ہوگا رعب کے ذریعے ان کی گرفت ہوگی (یعنی دلوں پر رعب طاری ہوجائے گا اور دشمنوں سے ڈرتے رہیں گے) حضرت ابن عباس اور ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی قوم میں (ایک روایت میں ہے کہ جب کسی بستی میں) زنا اور سود کا ظہور ہوجائے تو ان لوگوں نے اپنی جانوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل کرلیا۔ (الترغیب والترہیب ص 278 ج 3) جب زنا عام ہوجاتا ہے تو حرام کی اولاد بھی زیادہ ہوجاتی ہے نسب باقی نہیں رہتا کون کس کا بیٹا اور کس کا بھتیجا یا بھانجا، ان سب باتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ صلہ رحمی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اور انسان، حیوان محض بن کر رہ جاتا ہے۔ حلالی ہونے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ حرامی ہونے ہی کو مناسب سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں یورپ کے رہنے والوں پر یہ باتیں مخفی نہیں ہیں۔ حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت برابر خیر پر رہے گی جب تک ان میں زنا اولاد کی کثرت نہ ہوجائے۔ سو جب ان میں زنا کی اولاد پھیل جائے گی تو عنقریب اللہ تعالیٰ ان کو عام عذاب میں مبتلا فرما دے گا اور ایک حدیث میں یوں ہے کہ جب زنا ظاہر ہوجائے گا تو تنگدستی اور ذلت کا ظہور ہوگا۔ (الترغیب والترہیب ص 277 ج 3) صحیح بخاری میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے رسول اللہ ﷺ کا ایک خواب مروی ہے (حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا خواب سچا ہوتا ہے) جس میں بہت سی چیزوں کا تذکرہ ہے ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ کا گذر ایک ایسے سوراخ پر ہوا جو تنور کی طرح تھا۔ اس میں جو جھانک کر دیکھا تو اس میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں نظر آئیں ان کے نیچے سے آگ کی لپٹ آتی تھی جب وہ لپٹ اوپر آتی تھیں تو وہ چیختے چلاتے اور فریاد کرتے تھے آپ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت فرمایا (جن میں ایک جبرائیل اور ایک میکائیل تھے) یہ کیا ماجرا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ زنا کار مرد اور زنا کار عورتیں ہیں۔ (صحیح بخاری ص 1044 وھو فی المشکوٰۃ 395) جب زنا کی عادت پڑجاتی ہے تو بڑھاپے میں بھی زنا کرتے رہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات نہ کرے گا اور ان کو پاک نہ کرے گا اور ان کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا (1) زنا کار بوڑھا (2) جھوٹا بادشاہ (3) تنگدست متکبر۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے، ان میں زنا کار بوڑھے کو بھی شمار فرمایا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ تین شخصوں سے اللہ کو بغض ہے ان میں سے ایک زنا کار بوڑھا بھی ہے۔ (الترغیب ص 275 ج 3) حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی ایسی عورت کے بستر پر بیٹھا جس کا شوہر گھر پر نہیں ہے (اور اس کے غائب ہونے کو اس نے زنا کا ذریعہ بنالیا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر ایک اژدھا مسلط فرمائے گا (الترغیب والترہیب ص 279 ج 3) شوہر گھر پر نہ ہو تو عورت مرد کی ضرورت محسوس کرتی ہے زنا کاری کا مزاج رکھنے والے ایسی عورت سے جوڑ بٹھا لیتے ہیں ایسے لوگوں کو مذکورہ بالا وعید سنائی ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ شوہر اگر گھر پر ہو اور دیوث ہو تو اس کی اجازت سے گناہ حلال ہوجائے گا زنا ہر حال میں حرام ہے۔ اسلام عفت اور عصمت والا دین ہے۔ اس میں فواحش اور منکرات اور زناکاری اور اس کے اسباب اور دواعی، ناچ رنگ، عریانی وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ یورپ کے شہوت پرست انسان نما حیوانوں میں زنا کاری عام ہے محرم عورتوں تک سے زنا کرتے ہیں قانوناً مردوں کو مردوں سے شہوت پوری کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ سے طرح طرح کے بدترین امراض میں مبتلا ہیں۔ ایک حدیث میں بربادی کے اسباب میں سے یہ بھی بتایا جاتا ہے۔ اکتفی الرجال بالرجال والنساء بالنساء کہ مرد مردوں سے شہوت پوری کرنے لگیں اور عورتیں عورتوں سے۔ (الترغیب والترہیب ص 267 ج 3) یورپ والوں کی دیکھا دیکھی مسلمان بھی ان کے کرتوتوں کے ساتھی بنتے جا رہے ہیں اور شہوت پرستوں کو ان کے مقاصد میں کامیاب بنا رہے ہیں سورة نساء میں فرمایا (وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّھَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا) (اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرمائے، اور جو لوگ شہوتوں کا اتباع کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم بڑی بھاری کجی میں پڑجاؤ۔ ) بعض زنا کار عورتوں کی یہ بات سننے میں آئی ہے کہ میرا بدن ہے جس طرح چاہوں استعمال کروں۔ یہ تو کفریہ بات ہے قرآن کا مقابلہ ہے۔ اس کا معنی ہے (العیاذ باللہ) کہ زنا کاری سے قرآن کا منع فرمانا صحیح نہیں، درحقیقت بہت سے لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ ہم بندے ہیں اللہ تعالیٰ خالق ہے اور مالک ہے، سارے بندے اس کی مخلوق ہیں اور مملوک ہیں مملوک کو کیا حق ہے کہ اپنی ذات کو اپنے بارے میں اور اپنے جسم و جان کے بارے میں خود مختار سمجھے۔ بہت سے ملکوں میں یہ قانون نافذ ہے کہ زنا بالجبر تو منع ہے لیکن اگر رضا مندی سے کوئی مرد عورت سے زنا کرلے تو اس پر نہ کوئی مواخذہ ہے اور نہ کوئی سزا۔ بہت سے وہ ممالک جن کے اصحاب اقتدار مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں ان کے ملک میں بھی یہ قانون نافذ ہے اور دشمنوں کے سمجھانے سے یہ قانون پاس کردیا گیا ہے کہ بیک وقت نکاح میں صرف ایک عورت رہ سکتی ہے لیکن دوستانیاں جتنی چاہے رکھ سکتا ہے۔ زنا کاری کو عام کردینا انجام کے اعتبار سے کیا رنگ لائے گا اس کے بارے میں بالکل کوئی فکر نہیں، مسلمان ممالک کے ذمہ دار دشمنوں کے سامنے اس بات سے جھینپتے ہیں کہ ایک سے زیادہ عورتیں نکاح میں رکھنے کا قانون پاس کردیں۔ مسلمان کو کافر سے کیا جھینپنا ؟ اسے تو قرآن و حدیث کے قوانین نافذ کرنا لازم ہے۔ آخر میں ایک حدیث کا ترجمہ لکھ کر یہ مضمون ختم کیا جاتا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین کی جماعت پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہوجاؤ گے اور اللہ کرے کہ تم ان چیزوں کو نہ پاؤ (تو طرح طرح کی مصیبتوں اور بلاؤں میں ابتلاء ہوگا۔ ) (1) جس قوم میں کھلم کھلا طریقہ بےحیائی کا رواج ہوجائے گا ان لوگوں میں طاعون پھیلے گا اور ایسے امراض میں مبتلا ہوں گے جو ان کے اسلاف میں نہیں تھے۔ (2) اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کو قحط کے ذریعہ پکڑا جائے گا اور سخت محنت اور بادشاہ کے ظلم میں مبتلا ہونگے۔ (3) اور جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ کو روک لیں ان سے بارش روک لی جائے گی اور اگر جانور نہ ہوں تو (بالکل ہی) بارش نہ ہو۔ (4) اور جو لوگ اللہ کے عہد کو اور اس کے رسول کے عہد کو توڑ دیں گے ان کے اوپر دشمن مسلط کردیا جائے گا وہ ان کے بعض اموال لے لے گا۔ (5) اور جس قوم کے اصحاب اقتدار اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلے نہ کریں گے اور اللہ نے جو چیز نازل فرمائی اس کو اختیار نہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں ایسی مخالفت پیدا فرما دے گا جس کی وجہ سے آپس میں لڑتے رہیں گے۔ (رواہ ابن ماجہ فی باب العقوبات ص 112)
Top