Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان برائی کے لیے ایسے دعا مانگتا ہے جیسے خیر کے لیے مانگتا ہے اور انسان جلد باز ہے
انسان اپنے لیے برائی کی بددعا کرتا ہے، اس کے مزاج میں جلد بازی ہے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ انسان اپنے لیے برائی کی دعا کی ہے اور جس طرح خیر کی دعا کرتا ہے اسی انداز میں شر کی دعا کر بیٹھتا ہے۔ تفسیر درمنثور (ص 166 ج 4) میں حضرت حسن سے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اپنی جان کو اور اپنی بیوی کو اور اپنے مال کو اور اپنی اولاد کو برے الفاظ میں یاد کرتا ہے پھر اگر اس کی بددعا کے مطابق اللہ تعالیٰ اس پر تکلیف بھیج دے تو ناگوار معلوم ہوتا ہے پھر خیر کی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے خیر عطا فرما دیتا ہے، حضرت مجاہد سے بھی یہی بات نقل کی ہے، حقیقت میں انسان ذرا سی ناگواری کی وجہ سے بددعا کر بیٹھتا ہے حالانکہ دعا ہمیشہ خیر ہی کی مانگنی چاہیے اور عافیت ہی کا سوال کرنا چاہیے حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی جانوں اور اپنی اولاد اور اپنے مالوں کے لیے بددعا نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی مقبولیت کی گھڑی میں اللہ جل شانہ سے سوال کر بیٹھو اور وہ تمہاری بد دعا قبول فرمالے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 194 از مسلم) اس کے بعد انسان کا مزاج بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا) (اور انسان جلد باز ہے) دوسری آیت میں فرمایا ہے (خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ) (انسان جلدی سے پیدا کیا گیا ہے) انسان کا یہ مزاج ہے کہ اس کے اعمال اور اشغال میں عجلت ظاہر ہوتی رہتی ہے اور یہ عجلت بہت سی مصیبتوں کا سبب بن جاتی ہے بہت سے ایکسیڈنٹ جلد بازی کی وجہ سے ہوتے ہیں اور بہت سے فیصلہ کرنے میں جلدی کرتے ہیں طلاق دے بیٹھتے ہیں اور ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں پچھتاتے ہیں اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ الاناۃ من اللّٰہ والعجلۃ من الشیطان کہ بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 429 از ترمذی) ہر کام سوچ سمجھ کر اطمینان سے ہونا چاہیے البتہ آخرت کے کاموں میں جلدی کرے یعنی ان کی طرف آگے بڑھنے میں دیر نہ لگائے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ جلد بازی میں آخرت کا کام خراب کرلے، آخرت کے کام میں دیر نہ لگائے جیسے ہی موقع لگے انجام دیدے اور مشغول ہوجائے اسی کو (سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ) میں فرمایا ہے۔ آخرت کے اعمال میں جلدی کا یہ مطلب نہیں کہ ناقص اعمال ادا کرے، عمل تو پورا ہو لیکن اس کی طرف متوجہ ہونے میں جلدی کرے جب شروع کرے تو اچھی طرح انجام دے، بہت سے لوگ نماز شروع کرتے ہیں تو کھٹاکھٹ تو چل میں آیا کے مطابق رکوع سجدہ ادا کرتے چلے جاتے ہیں ہر چیز ناقص ادا ہوتی ہے، جو شخص امام کے ساتھ نیت باندھے اور پھر امام سے پہلے سر اٹھائے اس کی جلد بازی کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا سر بنا دے، چونکہ گدھا بےوقوفی میں مشہور ہے اس لیے یہ بات فرمائی جب امام کے سلام کے ساتھ ہی نماز سے نکلنا ہے تو اس سے پہلے رکوع اور سجدہ کرنا بےوقوفی نہیں ہے تو کیا ہے ؟
Top