Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
آپ فرما دیجیے کہ اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس صورت میں خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روک لیتے اور انسان خرچ کرنے میں بڑا تنگ دل ہے
اگر تمہارے پاس میرے رب کی رحمت کے خزانے ہوتے تو خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روک لیتے، انسان بڑا تنگ دل ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم میرے رب کے خزانوں کے مالک ہوتے اور تمہیں اختیار ہوتا کہ جسے چاہو دو اور جسے چاہو نہ دو ۔ تو تم ہاتھ روک لیتے کسی کو نہ دیتے۔ اللہ تعالیٰ رازق ہے اور خالق ہے۔ اپنی مخلوق کو رزق عطا فرماتا ہے جس کا جتنا رزق مقرر اور مقسوم فرمایا ہے پورا کیے بغیر موت نہ آئے گی۔ جب سے مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ شانہ رزق دیتا ہے اور جس قدر اس کی مخلوق بڑھتی چلی جائے اس کی نعمتوں اور رحمتوں میں کوئی کمی نہیں، مخلوق بھی بڑھ رہی ہے اور رزق بھی بڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو عطا فرماتا ہے اور حاجتیں پوری فرماتا ہے دوست اور دشمن سب کو دیتا ہے ایک حدیث میں ہے ارائیتم ما انفق منذ خلق السموات والارض فانہ لم یغض ما فی یدہ (تم ہی بتاؤ اس نے جب سے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے کتنا خرچ فرما دیا اس سب کے باوجود اس کے قبضہ قدرت سے کچھ بھی کم نہیں ہوا۔ ) (مشکوٰۃ المصابیح ص 21) یہ جو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت ہے بھرپور انفاق ہے حاجت روائی ہے یہ سب اس کی رحمت کے خزانوں میں سے ہے اگر اس کے خزانے مخلوق کے اختیار میں ہوتے اور وہ خرچ کرنے والے ہوتے تو وہ اس ڈر سے کہ یہ سب خرچ ہوگیا تو تنگ دستی آجائے گی خرچ کرنے سے ہاتھ روک لیتے (وَکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا) اور انسان طبعی طور پر قتور واقع ہوا ہے جو خرچ کرنا چاہتا ہے۔ کنجوس ہے تنگ دل ہے، علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں مشرکین کی اس بات کا جواب ہے جو انہوں نے کہا ہے کہ ہماری سرزمین میں چشمے جاری کروا دیجیے تاکہ ہماری تنگ دستی جاتی رہے اور معیشت میں وسعت ہوجائے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تمہیں وسعت نصیب ہوجائے تب بھی کنجوسی کرو گے کیونکہ انسان مزاج اور طبیعت کے طور پر بخیل، کم دلا اور نخر چا واقع ہوا ہے۔
Top