Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 9
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ
اِنَّا : بیشک نَحْنُ : ہم نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا الذِّكْرَ : یاد دہانی (قرآن) وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے لَحٰفِظُوْنَ : نگہبان
بلاشبہ ہم نے ذکر کو نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم کا محافظ ہے یہ چار آیات ہیں ان میں سے پہلی آیت میں منکرین رسالت کا یہ قول نقل فرمایا ہے کہ اے وہ شخص جس پر ذکر یعنی قرآن نازل کیا گیا ہے ہمیں تیرے دیوانہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ان کا اصل مقصود دیوانہ بتانا تھا آنحضرت ﷺ کا اسم گرامی بتانے کی بجائے جو انہوں نے (الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ ) (جس پر ذکر نازل کیا گیا) کہا ان کا یہ کہنا بطور تمسخر کے تھا کیونکہ وہ اس بات کو مانتے ہی نہیں تھے کہ اللہ کی طرف سے آپ پر وحی آتی ہے، دوسری آیت میں منکرین اور معاندین کی کٹ حجتی بیان فرمائی ہے اور تیسری آیت میں ان کی کٹ حجتی کا جواب دیا ہے ان لوگوں نے کٹ حجتی کے طور پر یوں کہا کہ اگر تم اپنے دعوائے رسالت میں سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو لے آؤ، تم فرشتے کیوں نہیں لاتے جو اس بات کی گواہی دیں کہ تم اللہ کے رسول ہو، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے جواب میں فرمایا کہ ہم فرشتوں کو فیصلے کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں یعنی جب لوگوں کی درخواست پر فرشتے آجائیں گے تو ان کا آنا فیصلہ ہی کے لیے ہوتا ہے فرشتوں کے آنے پر بھی لوگ ایمان نہیں لاتے تو لازمی طور پر عذاب آجاتا ہے اور اس وقت منکرین کو مہلت بھی نہیں دی جاتی، قرآن مجید کے مخاطب جو یوں کہہ رہے ہیں کہ فرشتے نازل ہو کر آپ کی رسالت کی گواہی دے دیں ان کی اس بات کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی ہلاکت جلدی ہوجائے کیونکہ انہیں فرشتوں کی آمد پر بھی ماننا نہیں ہے۔ چوتھی آیت میں قرآن مجید کی حفاظت کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ) (بلاشبہ ہم نے قرآن نازل کیا، اور بلاشبہ ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں) منکرین رسالت محمدیہ (علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ) جو منکرین قرآن بھی تھے انہوں نے بطور تمسخر انکار کیا اللہ جل شانہ نے ان کی تردید فرمائی (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ ) اور فرمایا کہ ہم نے قرآن نازل کیا تمہارے نہ ماننے سے حقیقت واقعیہ نہیں بدلے گی، منکرین یہ بھی کہتے تھے کہ اس کو یہ اللہ کی کتاب بتاتے ہیں اگر یہ اللہ کی طرف سے ہی ہے تب بھی چند دن کی بات ہے نہ جانے یہ کتنے دن زندہ رہتے ہیں اور کتنے دن ان کی دعوت کا کام چلتا ہے، اور یہ جو کتاب ان کے دعوے کے مطابق ان پر نازل ہو رہی ہے نہ جانے محفوظ بھی رہے گی یا نہیں، اور اس کے پڑھنے والے اور اس کو یاد رکھنے والے آگے بڑھیں گے یا نہیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ بلاشبہ ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ شانہٗ نے خود قرآن مجید کی حفاظت کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اس کی حفاظت کا ذمہ دار انسانوں کو نہیں بنایا جیسا کہ توریت شریف کی حفاظت ان کے علماء اور مشائخ کے ذمے ڈالی گئی تھی سورة مائدہ میں جو (بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ) فرمایا ہے اس میں ان کی اسی ذمہ داری کو بیان فرمایا ہے۔ قرآن مجید ہر طرح کی تغییر اور تبدیل اور تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ ہے اس کی تمام قراء ات اور روایات کے جاننے والے پڑھنے پڑھانے والے اور حفظ کرنے والے ہمیشہ سے موجود ہیں اور جب تک اللہ کی مشیت ہوگی ہمیشہ موجود رہیں گے، رسول اللہ ﷺ نے جو قرآن شریف چھوڑا تھا وہ آج تک مسلمانوں کے پاس اسی طرح محفوظ ہے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی نہ کوئی شخص کرسکتا ہے اگر کوئی غلط پڑھے گا یا غلط چھاپ دے گا تو فوراً پکڑا جائے گا اسی (80) سال کا قاری یا حافظ کسی جگہ اگر غلطی کردے تو نو سال کا بچہ جس نے قرآن حفظ کر رکھا ہو اسی وقت ٹوک دے گا سینکڑوں سال پہلے کے لکھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے دیکھ لو جو مسلسل یکے بعد دیگرے لکھے گئے ہیں وہ سب ابتداء سے انتہا تک الفاظ اور حروف اور کلمات اور ترتیب آیات کے اعتبار سے بالکل پوری طرح متفق ہیں کوئی فرق نہیں اور کوئی اختلاف نہیں اس کو دوست اور دشمن مانتے ہیں، بعض جاہل اختلاف قراء ات کو بہانہ بنا کر اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کا یہ اعتراض ساقط ہے کیونکہ یہ قراء ات بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور یہ قراء ات ہمیشہ سے محفوظ ہیں اور موجود ہیں اگر کوئی شخص بعض آیات کے منسوخ ہونے پر اشکال کرے تو اس کا یہ اشکال بےوزن ہے اور غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نسخ نہیں ہوا یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے شیاطین سے بھی محفوظ ہے، ملحدین سے بھی، منکرین سے بھی، محرفین سے بھی، (لاَ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ ) (جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے کی طرف سے آسکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے کی طرف سے یہ خدائے حکیم و محمود کی طرف سے نازل کیا گیا ہے) روافض قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اللہ کے وعدہ حفاظت پر ان کا ایمان نہیں قرآن مجید کئی اعتبار سے معجزہ ہے، وجوہ اعجاز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تغییر اور تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ ہے چونکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت قیامت تک کے لیے ہے اس لیے کسی ایسے معجزہ کی ضرورت تھی جو آخری زمانہ تک موجود رہے، یہ معجزہ قرآن مجید ہے جو ہمیشہ کے لیے باقی ہے حق کا اعلان کرنے والا ہے۔ توحید کی دعوت دینے والا اور اس کا یہ چیلنج ہمیشہ سے ہے کہ میرے جیسی ایک سورت بناکر لاؤ آج تک نہ کوئی لاسکا اور نہ کوئی لاسکے گا بعض فرقے جو اسلام کے مدعی ہیں یعنی روافض وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے یہ لوگ آیت بالا کے منکر ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے کہ جب قرآن مجید میں تحریف کا دعویٰ کرتے ہیں تو کسی بھی سورت کے مقابلہ میں کوئی سورت بنا کرلے آئیں، اگر نہیں لاسکتے تو قرآن کا وہی اعلان سن لیں جو سورة بقرہ میں مذکور ہے (فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ ) (سو بچو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہے وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے)
Top