Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 43
وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۫ۙ
وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمَوْعِدُهُمْ : ان کے لیے وعدہ گاہ اَجْمَعِيْنَ : سب
اور بلاشبہ سب سے جہنم کا وعدہ ہے
شیطان اور اس کا اتباع کرنے والے دوزخ میں ہوں گے آخر میں فرمایا (وَ اِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (اور بلاشبہ ان سب سے جہنم کا وعدہ ہے) یعنی جو لوگ تیرا اتباع کریں گے وہ سب دوزخ میں داخل ہوں گے، سورة ص میں ہے کہ جب ابلیس نے کہا کہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا (لَاَمْلَءَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (میں تجھ سے اور جو لوگ تیرا اتباع کریں گے ان سب سے دوزخ کو بھر دوں گا) ابلیس تو اپنے تکبر کی وجہ سے جہنم میں جانے کو تیار ہی ہے لیکن بنی آدم پر افسوس ہے کہ وہ اپنے اس دشمن کی باتوں پر چلتے ہیں جس نے انہیں گمراہ کرنے کی قسم کھائی تھی، ابلیس تو اپنی قسم پر جما ہوا ہے لیکن بنی آدم جو اس کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں اور اس کے پیروکار بنے ہوئے ہیں وہ ذرا سی لذت کی وجہ سے جو گناہوں میں محسوس ہوتی ہے اپنی جانوں کو دوزخ میں گھسیٹ دیتے ہیں، دشمن کی بات مانتے ہیں اور خالق ومالک جل مجدہ کی نصیحت پر عمل کرنے کو تیار نہیں، عجیب بات ہے کہ بنی آدم میں سے جو شخص دشمن ہوجائے اسے تو دشمن سمجھتے ہیں اور ابلیس کے ساتھ دشمن والا معاملہ نہیں کرتے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بار بار (عَدُوٌ مُّبِیْنَ ) (کھلا ہوا دشمن) فرمایا ہے۔
Top