Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 36
قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب فَاَنْظِرْنِيْٓ : تو مجھے مہلت دے اِلٰى : تک يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ : جس دن (مردے) اٹھائے جائیں
ابلیس نے کہا کہ اے رب سو آپ اس دن تک مہلت دے دیجیے جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے
ابلیس کا مہلت مانگنا بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے تھا کعب احبار کا بیان ہم نے مختصر کرکے لکھا ہے جس کی حیثیت اسرائیلیات سے زیادہ نہیں ہے البتہ قرآن مجید کی یہ تصریح کہ اسے وقت معلوم تک مہلت دی گئی اس سے قطعی طور پر معلوم ہوا کہ ابلیس کے سوال پر اللہ تعالیٰ نے اسے بہت زیادہ عمر دے دی جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، ابلیس کا مہلت مانگنا توبہ اور انابت اور طاعت اور عبادت کے لیے نہیں تھا بلکہ شرارت کے لیے اور اولاد آدم سے بدلہ لینے کے لیے تھا جب اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی تو وہ اب کھلے طور پر کہنے لگا کہ اے رب اس وجہ سے کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا ہے میں اس شخص کی اولاد کو تیرے راستہ سے ہٹاؤں گا اور گمراہ کروں گا اور گمراہ کرنے کے طریقے بھی اس نے بتا دئیے ان میں سے ایک طریقہ یہاں سورة حجر میں مذکور ہے اور وہ یہ ہے کہ (لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ ) کہ ان لوگوں کے لیے میں ان کاموں کو اچھا کرکے دکھاؤں گا جن سے آپ ناراض ہوں گے (لَاُزَیِّنَنَّ ) کا مفعول محذوف ہے یعنی لازینن لھم المعاصی اور (فِی الْاَرْضِ ) اس لیے کہا کہ یہ نئی مخلوق زمین میں رہنے کے لیے پیدا کی گئی ہے گمراہ کرنے کی بعض صورتیں سورة نساء کی آیت (اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا) میں اور سورة اعراف کی آیت (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ) میں بیان کی گئی ہے مراجعت کرلی جائے۔
Top