Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 31
اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ
اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس اَبٰٓى : اس نے انکار کیا اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : وہ ہو مَعَ : ساتھ السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
اس نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو،
ابلیس کا سجدہ کرنے سے انکاری ہونا انسان اور جن کی تخلیق کا تذکرہ فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں سے فرما دیا تھا کہ میں ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں جو بجتی ہوئی کالی سڑی ہوئی مٹی سے بنایا جائے گا جب وہ بن جائے اور میں اس میں روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ ریز ہوجانا یعنی اسے تعظیمی سجدہ کرنا چناچہ فرشتوں نے حکم مانا فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا اور سب نے بیک وقت مجتمع ہو کر آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کردیا یہ سجدہ تعظیمی تھا سجدہ عبادت نہیں تھا عبادت تو غیر اللہ کے لیے کبھی بھی جائز نہیں تھی البتہ سجدہ تعظیمی بعض شرائع سابقہ میں جائز تھا شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ میں سجدہ تعظیمی بھی منسوخ کردیا گیا۔ اب سجدہ تعظیمی غیر اللہ کے لیے حرام ہے۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا وہ تھا تو جنات میں سے لیکن فرشتوں کے ساتھ عالم بالا میں رہتا تھا اس کو بھی سجدہ کا حکم دیا گیا جیسا کہ سورة اعراف میں اس کی تصریح ہے، ابلیس نے کہا کہ میں اس کو سجدہ نہیں کرتا اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ) اس کا کیا باعث ہے کہ تو اس کو سجدہ نہ کرے جبکہ میں نے تجھے حکم دیا اس پر اس نے تکبر کے ساتھ جواب دیا اور اللہ تعالیٰ شانہٗ کی جو حکم عدولی کی تھی اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے کہنے لگا (لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ ) (میں ایسا نہیں ہوں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے آپ نے کالی سڑی ہوئی مٹی سے پیدا کیا) سورة کہف میں ہے کہ ابلیس نے یوں کہا (ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا) (کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے آپ نے مٹی سے بنایا ہے) ابلیس نے اول تو نافرمانی کی پھر اوپر سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو حکمت کے خلاف بتایا اور جس مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تھا اسے اس نے اپنے سے کم تر ظاہر کیا یہ سب تکبر کی وجہ سے ہوا، ابلیس کو تکبر کھا گیا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ تو یہاں سے یعنی آسمان سے نکل جا قیامت کے دن تک تجھ پر لعنت ہے (جو شخص قیامت کا صور پھونکنے تک ملعون ہوگیا اس کے بعد بھی ملعون ہی رہے گا کیونکہ کفر پر مرنا ابدالآباد لعنت میں رہنے کا سبب ہے۔ ) ابلیس کی ملعونیت ابلیس نے اب بھی توبہ نہ کی ہمیشہ کے لیے ملعون ہونا منظور کرلیا لیکن یوں نہ کہا کہ مجھے معاف کردیا جائے اب سجدہ کرلیتا ہوں، اس وقت سے اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذریت کو بہکانے، ورغلانے گمراہ کرنے کی ٹھان لی، جس کا مقصد یہ تھا کہ جس کی وجہ سے ملعون ہوا ہوں اس سے بدلہ لیا جائے لیکن اس بات کو ظاہر کرنے سے پہلے اس نے اللہ جل شانہ سے قیامت کے دن تک زندہ رہنے کی مہلت مانگی اللہ تعالیٰ شانہ نے اس کو مہلت دے دی اور فرمایا (فَاِِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ اِِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ) (بےشک تو ان لوگوں میں سے ہے جنہیں وقت معلوم تک مہلت دی گئی) صاحب روح المعانی الوقت المعلوم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے قیامت کے دن نفخہ اولیٰ یعنی پہلی بار صور پھونکا جانا مراد ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے ایسا ہی مروی ہے اور جمہور نے یہی فرمایا ہے قیامت کے آنے کا وقت اللہ تعالیٰ شانہ ہی کو معلوم ہے اس لیے اسے ” الوقت المعلوم “ سے تعبیر فرمایا۔ روح المعانی میں کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ نفخہ اولیٰ کے بعد حضرت ملک الموت سے اللہ تعالیٰ شانہ کا خطاب ہوگا کہ ابلیس کی روح قبض کرلو ابلیس حضرت ملک الموت ( علیہ السلام) کو دیکھ کر مشرق کی طرف بھاگے گا پھر مغرب کی طرف، ہر طرف ملک الموت سامنے آئیں گے پھر سمندروں میں گھسنا چاہے گا سمندر بھی قبول نہ کریں گے، اسی طرح زمین میں بھاگا بھاگا پھرے گا لیکن اسے کسی جگہ پناہ نہ ملے گی حضرات ملائکہ جو حضرت ملک الموت ( علیہ السلام) کے ساتھ ہوں گے اسے سنڈاسیوں کے ساتھ پکڑلیں گے اس کی نزع کی کیفیت شروع ہوجائے گی اور الی ماشاء اللہ نزع کے عذاب میں رہے گا پھر اس کی روح قبض کرلی جائے گی۔
Top