Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور بلاشبہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا جو سیاہ رنگ کے سڑے ہوئے گارے سے بنی تھی ،
انسان اور جنات کی تخلیق، ابلیس کو سجدہ کرنے کا حکم اور اس کی نافرمانی اور ملعونیت، بنی آدم کو ورغلانے کے لیے اس کا قسم کھانا اور لمبی عمر کی درخواست کرنا، مخلصین کے بہکانے سے عاجزی کا اقرار، ابلیس کا اتباع کرنے والوں کے لیے داخلہ دوزخ کا اعلان ان آیات میں انسان اور جنات کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا اور یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک بشر کو پیدا فرمانے والا ہوں جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدہ میں گرپڑنا، چناچہ جب اس بشر کی تخلیق ہوگئی اور روح پھونک دی گئی جس کے پیدا فرمانے کا پہلے سے اعلان فرمایا تھا تو تمام فرشتے اس بشر کو سجدہ کرنے کے لیے گرپڑے۔ یہ نئی مخلوق جسے سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تھا یہاں اسے انسان اور بشر فرمایا ہے اور سورة بقرہ اور سورة اعراف اور سورة بنی اسرائیل وغیرہ میں اس کا نام لیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان تھے ان کی ساری اولاد بنی نوع انسان یہ لفظ ” انس “ سے لیا گیا ہے چونکہ بنی آدم کو انس کی ضرورت ہے تنہائی ناگوار ہے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے اور مانوس ہوتے ہیں اس لیے انسان کا نام انسان ہی رکھا گیا۔ انسان جنس کے لیے بولا جاتا ہے تمام بنی آدم مرد اور عورت انسان ہیں، بنی آدم کے لیے دوسرا لفظ بشر استعمال فرمایا ہے انسان کے سر پر تو اچھی طرح بال ہوتے ہیں لیکن اس کا باقی بشرہ یعنی کھال کا ظاہری حصہ بالوں سے اس طرح بھرا ہوا نہیں ہوتا جیسے چوپاؤں کے جسم پر بڑے بڑے بال ہوتے ہیں اور کھال ان بالوں میں چھپی رہتی ہے اس بےبال والے جسم کی مناسبت سے انسان کو بشر کہا جاتا ہے۔ صلصال اور حماً مسنون کا مصداق انسانی تخلیق کا ذکر فرماتے ہوئے سورة مومن میں فرمایا کہ تراب (مٹی) سے پیدا فرمایا اور سورة ص میں فرمایا کہ طین (کیچڑ) سے پیدا فرمایا اور یہاں سورة حجر میں فرمایا کہ صلصال بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور ساتھ ہی (مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) بھی فرمایا حما کالے رنگ کی کیچڑ اور مسنون سڑی ہوئی چیز جس میں پڑے پڑے تغیر آگیا ہو اور بدبو پیدا ہوگئی ہو اور سورة رحمن میں فرمایا (خَلَقَ الْاِِنسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ ) (اللہ نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا) پانی ملانے سے پہلے یہ تراب تھی پانی ملا دیا گیا تو کیچڑ ہوگئی یہ کیچڑ ایک زمانہ تک پڑی رہی تو سڑ گئی اور کالی ہوگئی پھر اس سے حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا بنایا گیا وہ پتلا سوکھ گیا تو وہ ٹھیکرے کی طرح بجنے والی چیز بن گیا روح پھونکنے سے پہلے جو مختلف احوال و ادوار گزرے ان کو آیات قرآنیہ میں بیان فرمایا ہے کوئی ایک حالت دوسری حالت کے معارض نہیں ہے جنات کی تخلیق کے بارے میں فرمایا (وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّار السَّمُوْمِ ) (اور ہم نے جن کو اس سے پہلے آگ سے پیدا کیا جو ایک گرم ہوا تھی) اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ جنات کی تخلیق انسان سے پہلے ہوئی آیت کریمہ میں لفظ الجان فرمایا ہے اس سے جنس جنات کا باپ مراد ہے جو سب سے پہلے پیدا ہوا حضرت آدم (علیہ السلام) ابو البشر ہیں اور الجان ابو الجن ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے ابلیس مراد ہے وہ تمام جنات کا باپ ہے لیکن یہ بات کسی سند سے منقول نہیں ہے آکام المرجان میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جنات کا باپ (جو سب سے پہلے پیدا کیا گیا) اس کا نام سومی تھا پھر اس سے جنات کی نسل چلی، نیز یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے جنات زمین میں رہتے تھے اور ان کی پیدائش سے پہلے جنات کی آبادی کو زمین میں دو ہزار سال گزر چکے تھے (اور ایک قول یہ ہے کہ چالیس سال گزرے تھے) یہ زمین میں فساد کرتے تھے خون بہاتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے یوسف کو قتل کردیا جو ان کا بادشاہ تھا اور ایک قول یہ ہے کہ وہ ان کا پیغمبر تھا۔ فرشتوں نے جب اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان سنا کہ زمین میں ایک خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں تو وہ جنات پر قیاس کرکے بول اٹھے کہ آپ ایسی مخلوق کو پیدا فرمائیں گے جو دنیا میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے جس کا تذکرہ سورة بقرہ کے چوتھے رکوع میں گزر چکا ہے۔ لفظ جان اور جن کا مادہ جنن ہے، جو مضاعف ہے آخر میں دو نون ہیں یہ مادہ چھپانے اور پوشیدہ کرنے پر دلالت کرتا ہے چونکہ جنات انسانوں کی آنکھوں سے پوشیدہ رہتے ہیں اس لیے انہیں جنات کہا جاتا ہے۔ یہاں سورة حجر میں جنات کی پیدائش نارسموم سے بتائی ہے اور سورة رحمن میں (وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ ) فرمایا ہے مارج وہ آگ جس میں دھواں نہ ہو دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ جنات کی تخلیق ایسی آگ سے ہے جو گرم ہوا کی طرح سے تھی دھویں کے اجزاء شامل نہ ہونے کی وجہ سے نظر نہ آتی تھی لفظ سموسم سے لیا گیا ہے سم عربی میں زہر کو کہتے ہیں صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا معنی نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ الریح الحارۃ التی تقتل یعنی وہ گرم ہوا جو قتل کردیتی ہے، پھر لکھا ہے و سمیت سموما لانھا بلطفھا تنفذ فی مسام البدن و منہ السم القاتل (یعنی اس کا نام سموم اس لیے رکھا گیا کہ اپنی لطافت کی وجہ سے بدن کے مسامات میں نفوذ کرلیتی ہے اور زہر کو اسی لیے سم قاتل کہا جاتا ہے) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں والمراد من النار المفرطۃ الحرارۃ (یعنی نارسموم سے وہ آگ مراد ہے جو بہت زیادہ گرم ہو) چونکہ ابلیس جن کی جنس سے ہے جیسا کہ سورة کہف میں (کَانَ مِنَ الْجِنِّ ) فرمایا ہے اس لیے اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور یوں کہا (خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ) (آپ نے مجھے آگ سے اور اس کو کیچڑ سے پیدا کیا) اپنے خیال میں اس نے اپنے کو برتر سمجھا اور اپنے مادہ تخلیقی یعنی آگ کو افضل اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے مادہ تخلیق یعنی مٹی کو کمتر سمجھا یہ اس کی بہت بڑی غلطی تھی مادہ نار میں فساد ہے اور مادہ تراب میں تعمیر ہے اس لیے آگ مٹی سے افضل نہیں ہوسکتی۔
Top