Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور ہم نے اس میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیے اور ہم نے اس میں ایک معین مقدار سے ہر قسم کی چیز اگائی
زمین کا پھیلاؤ اور اس کے پہاڑ اور درخت معرفت الٰہی کی نشانیاں ہیں آسمان کے بروج اور آسمان کی زینت اور شیاطین سے ان کی حفاظت کا ذکر فرمانے کے بعد زمین کے پھیلانے کا اور اس میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دینے کا تذکرہ فرمایا، زمین بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی مخلوق ہے زمین پر لوگ بستے ہیں اور آسمان کی طرف بار بار دیکھتے ہیں دونوں اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ پر دلالت کرتے ہیں اور سورة لقمان میں فرمایا (وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ ) (اور اللہ نے زمین میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دئیے تاکہ وہ تمہیں لے کر حرکت نہ کرنے لگے۔ ) تفسیر روح المعانی ص 29 ج 14 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پانی پر پھیلا دیا تو وہ کشتی کی طرح ڈگمگانے لگی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس میں بھاری پہاڑ پیدا فرما دئیے تاکہ وہ حرکت نہ کرے ان پہاڑوں کے بارے میں سورة نبا میں فرمایا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا) (کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا) یہ استفہام تقریری ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے پہاڑوں کو زمین کی میخیں یعنی کیلیں بنا دیا یعنی پہاڑوں کو زمین میں گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی لیکن یہ ایک سبب ظاہری کے طور پر ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو پہاڑ بھی پھٹ جاتے ہیں اور زمین بھی ہل جاتی ہے اور پہاڑ اور زمین حرکت کرنے لگتے ہیں پھر فرمایا (وَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ ) (اور ہم نے زمین میں ہر قسم کی چیز ایک معین مقدار سے اگائی) موزون کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں ای مقدر بمقدار معین تقتضیہ الحکمۃ فھو مجاز مستعمل فی لازم معناہ۔
Top