Al-Quran-al-Kareem - As-Saff : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اے لوگو جو ایمان لائے ہو لِمَ تَقُوْلُوْنَ : کیوں تم کہتے ہو مَا لَا : وہ جو نہیں تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے۔
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ : ان آیات میں ان لوگوں پر تعجب اور شدید ناراضی کا اظہار ہے جو وہ بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ اس میں کئی طرح کے لوگ شامل ہیں ، عبد اللہ بن سلام ؓ فرماتے ہیں :’ ’ ہم نے آپس میں یہ ذکر کیا کہ کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کے پاس جائے اور آپ سے پوچھے کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب ہے ، مگر ہم میں سے کوئی بھی نہ اٹھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف ایک آدمی بھیجا اور ہمیں جمع کرنے کے بعد یہ سورت یعنی سورة ٔ صف پوری پڑھ کر سنائی“۔ (مسند احمد : 5، 452، ح : 23788) مسند احمد کے محققین نے فرمایا :“ امناق صحیح علی شرط الشیخین“ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے ان آیات کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :(کان ناس من المومنین قبل ان یفرض الجھاد یقولون لوددنا ان اللہ دل علی احب الاعمال الیہ فنعمل بہ ، فاخبر اللہ نبیہ ان احب الاعمال الیہ ایمان باللہ لا شک فیہ ، وجھاد اھل معصیتہ الذین خالفوا الایمان ولم یقروا بہ فلما نزل الجھاد ، کرہ ذلک اناس من المومنین وشق علیھم امرہ، فقال اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ) (یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) (الصف : 2) (طبری : 22، 6، ح : 34359)”مومنوں میں سے کچھ لوگ جہاد فرض ہونے سے پہلے کہتے تھے“۔ ”ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ہاں سب اعمال سے زیادہ محبوب عمل بتائے تو ہم وہ کریں“۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو بتایا کہ تمام اعمال میں سے محبوب وہ ایمان باللہ ہے جس میں کوئی شک نہ ہو اور اس کی نافرمانی کرنے والوں سے جہاد ہے جنہوں نے ایمان کی مخالفت کی اور اس کا اقرار نہیں کیا۔ پھر جب جہاد (کا حکم) نازل ہوا تو مومنوں میں سے کچھ لوگوں نے اسے ناپسند لوگو جو ایمان لائے ہو ! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے“۔ (یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ)”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے“۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان آیات سے مراد وہ لوگ ہیں جو جہاد فرض ہونے سے پہلے اس کی تمنا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہو کہ سب سے محبوب عمل کون سا ہے تو ہم وہ کریں گے ، مگر جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اس سے گریز کیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَج فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہ ِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَۃًج وَقَالُوْا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَج لَوْ لَآ اَخَّرْتَنَآاِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍط قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌج وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰیقف وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ) (النسائ : 77، 78)”کیا تو نے ان لوگوں دیکھا جس نے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو ، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ ، لوگوں سے ڈرنے لگے ، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انہوں نے کہا اے ہمارے رب ! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا ، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر دھاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے موت تمہیں پالے گی ، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو“۔ اور فرمایا :(وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ لَا نُزِّلَتْ سُوْرَۃٌج فَاِذَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ مُّحْکَمَۃٌ وَّذُکِرَ فِیْھَا الْقِتَالُلا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یَّنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ) (محمد : 20)”اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی ؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے ، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو“۔ اسی طرح وہ لوگ بھی مراد ہیں جنہوں نے تمہیں کا تھا کہ ہم جنگ میں پیٹھ نہیں دکھائیں گے ، مگر اس عہد پر قائم نہ رہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَلَقَدْ کَانُوْا عَاھَدُوا اللہ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَط وَکَانَ عَھْدُ اللہ ِ مَسْئُوْلا) (الاحزاب : 15)”حالانکہ بلا شبہ یقینا اس سے پہلے انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد ، ہمیشہ پوچھا جانے والا ہے“۔ 2۔”لم تقولون مالا تفعلون“ کے الفاظ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ایسے کاموں کا دعویٰ کرتے ہیں جو انہوں نے نہ کیے ہیں نہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہم نے جہاد کیا ، ہم نے دشمن کا منہ موڑ دیا ، ہم نے یہ کیا اور وہ کیا ، حالانکہ انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہوتا ، ان کی خواہش ان کارناموں پر اپنی تعریف کی ہوتی ہے جو انہوں نے نہیں کیے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَـلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِج وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ)”ان لوگوں کو ہرگز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انہوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انہوں نے نہیں کیے ، پس تو انہیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہرگز خیال نہ کر اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے“۔ 3۔ لم تقولون مالا تفعلون“ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی سے کوئی بھی ایسا وعدہ کرتے ہیں جسے پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ عبد اللہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میری امی نے مجھے بلایا ، جب کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے گھر تشریف رکھتے تھے ، کہنے لگی :”آؤ، میں تمہیں کچھ دو“۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :(وما اردت ان تعطیہ ؟) ”تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے ؟“ اس نے کہا :”میں اسے کھجوریں دوں گی“۔ آپ ﷺ نے فرمایا :(اما انک لو لم تعطیہ شیئا کتبت علیک کذبۃ) (ابو داؤد الادب ، باب التشدید فی الکذب :(499، وقال الالبانی حسن)”یاد رکھو ! اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا“۔ 4۔ بعض حضرات اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ آدمی جو عمل خود نہ کرتا ہو کسی دوسرے کو بھی اس کی دعوت نہ دے ، حالانکہ یہاں اس کام کے وعدے یا دعوے پر سر زنش ہے جو انسان نہ کرتاہو ، ایسے کام کی دعوت پر سرزش نہیں۔ فرائض پر عمل اور ان کی دعوت تو ہر ایک پر لازم ہے ، اگر ان کی دعوت دے مگر خود عمل نہ کرے تو اس پر واقعی گرفت ہے ، مگر وہ ترک عمل پر ہے دعوت پر نہیں۔ مزید دیکھئے سورة ٔ بقرہ کی آیت (44) (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ“ کی تفسیر۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر خود عمل نہ کرو تو دوسروں کو کہنا چھوڑ دو ، بلکہ اپنی کوتاہی پر ندامت اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دعوت و تبلیغ جاری رکھنی چاہیے اور امید کرنی چاہیے کہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کوتاہی دور کرنے کی توفیق بھی عطاء فرمائے گا۔ علاوہ ازیں ہر مسلمان پر دین کی ہر بات آگے پہنچانا فرض ہے۔ فرائض کے بارے میں خود عمل اور دوسروں تک پہنچانا دو کام فرض ہیں ، جب کہ مستحباب و فضائل کو آگے پہنچانا فرض ہے ، خود عمل کرے تو اجر ہے ، نہ کرسکے تو مؤاخذہ نہیں ، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :(بلغوا عنی ولو آیۃ) (بخاری ، احادیث الانبیاء ، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل : 3461، عن عبد اللہ بن عمرو ؓ ”مجھ سے آگے پہنچا دو ، خواہ ایک آیت ہو“۔ اور فرمایا :(فلیبلغ الشاھد الغائب قرب مبلغ او عی من سامع) (بخاری ، الحج ، باب الخطبۃ ایام منی : 1741، عن ابی بکرۃ ؓ)”تو جو موجود ہے وہ اس تک پہنچا دے جو موجود نہیں ، کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں پہنچایا جائے ، سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں“۔ امر بالمعروف اور نہ عن المنکر کی تاکید کے لئے دیکھئے سورة ٔ آل عمران (104، 110)۔ 5۔ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہ ِ۔۔۔:”مت یمقت مقتا ‘ ‘(ن)”ابغضہ بغضا شدیدا“ ان آیات میں اس وعدے یا دعوے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شدید ناراضی کا اظہار کئی طرح سے فرمایا ہے جس پر عمل نہ کیا جائے۔ سب سے پہلے ڈانٹ اور ملامت کے لیے استفہام انکاری کے ساتھ فرمایا کہ ایمان لانے کے باوجود تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ، پھر اس کام کی شناعت کے اظہار کے لیے اس کی ضمیر لانے کے بجائے دوسری آیت میں انہی الفاظ کو دہرایا ہے ، چناچہ پہلے فرمایا :(لم تقولون مالا تفعلون) پھر فرمایا :(ان تقولو مالا تفعلون) پھر ناراضی کی شدت کے اظہار کے لیے ”مقتا“ کا لفظ استعمال فرمایا، جس کا معنی شدید بغض ہے اور اس کے ساتھ ”کبر“ فرمایا کہ یہ شدید بغض ”کبیر“ بھی ہے۔ پھر ”عند اللہ“ کا لفظ ہے کہ یہ شدید بغض کسی عام شخص کا نہیں بلکہ اس عمل سے تم اللہ جل جلالہ کی شدید ناراضی کا نشانہ بن رہے ہو۔
Top