Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا۔۔ : یہ آیت اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہوسکتا ہے اور ابراہیم ؑ کی بات کو مکمل کرنے والا حصہ بھی۔ تنوین اکثر تنکیر کے لیے ہوتی ہے، اس سے لفظ عام ہوجاتا ہے اور اس کا ہر فرد اس میں شامل ہوجاتا ہے، جیسے اس آیت میں مذکور ”بِظُلْمٍ“ کی تنوین کو تنکیر کے لیے لیں تو معنی ہوگا : ”وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو کسی ظلم کے ساتھ نہیں ملایا“ اور بعض اوقات وہ دوسرے معانی کے لیے بھی ہوتی ہے، جن میں سے ایک معنی تعظیم بھی ہے، جس سے اس لفظ کا بڑا فرد مراد ہوتا ہے۔ جیسے اسی آیت میں ”بِظُلْمٍ“ کی تنوین کو تعظیم کے معنی میں لیا جائے تو مطلب ہوگا : ”وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بہت بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔“ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) [ الأنعام : 82 ] تو صحابہ کرام ؓ پر اس آیت کا مضمون شاق گزرا۔ انھوں نے عرض کیا : ”ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے نفس پر (کوئی) ظلم (یعنی گناہ) نہیں کیا ؟“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جو تم سمجھ رہے ہو وہ بات نہیں، کیا تم نے لقمان کا قول نہیں سنا، جو وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہے تھے : (ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) [ لقمان : 13 ] ”یقیناً شرک ظلم عظیم ہے۔“ [ بخاری، التفسیر، باب : (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ) : 4629۔ مسلم : 124 ] آپ دیکھیں کہ صحابہ کرام ؓ اہل زبان ہونے کے باوجود ”بِظُلْم“ کی تنوین کو تنکیر کے لیے سمجھ کر پریشان ہوگئے کہ کون ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو تو رسول اللہ ﷺ نے لقمان کا قول ذکر کر کے انھیں بتایا کہ یہ تنوین تعظیم کے لیے ہے، نہ کہ تنکیر کے لیے اور معنی یہ نہیں کہ کسی ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، بلکہ معنی یہ ہے کہ بہت بڑے ظلم، یعنی شرک کے ساتھ نہیں ملایا۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان جاننا کافی نہیں، کئی مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی تفسیر بھی ضروری ہے، اس لیے قرآن کو حدیث کے بغیر سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے واضح گمراہ ہیں۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ امن و سکون اور ہدایت ایسے خالص ایمان ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں جس میں توحید کے ساتھ کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ کی گئی ہو، جو قوم خالص ایمان اور خالص توحید سے محروم اور کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو اسے کسی صورت امن و چین اور ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ افسوس کہ مسلمانوں نے خالص توحید کو چھوڑا اور قبروں اور آستانوں کی پرستش شروع کردی (الا ما شاء اللہ) جس کے نتیجے میں پورا عالم اسلام ذلت و مسکنت کا نشانہ بن گیا۔ اب نہ کہیں امن ہے نہ ہدایت جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے احکام کی حکمرانی کا نام ہے۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ خالص توحید کی طرف پلٹے اور صرف اپنے رب کے آستانے پر جمی رہے۔
Top