Al-Quran-al-Kareem - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود بناتا ہے ؟ بیشک میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ اٰزَرَ۔۔ : اوپر کی آیات میں توحید کے حق ہونے اور شرک کے باطل ہونے کے دلائل بیان کرتے ہوئے مشرکین مکہ کے غلط عقائد پر تنقید کی گئی اور اب شرک کی تردید کے لیے ابراہیم ؑ کا قصہ بطور تائید بیان فرمایا کہ وہ توحید کے سب سے بڑے داعی اور شرک سے بےزار تھے اور مسلمانوں کو سمجھایا کہ دیکھو انھوں نے کس طرح قوم سے علیحدگی اختیار کی۔ مشرکین مکہ ابراہیم ؑ کے دین پر ہونے کے دعوے دار تھے، جب ابراہیم ؑ موحد تھے تو اب شرک کے جواز پر تمہارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ابراہیم ؑ کے والد کا نام آزر تھا۔ اب پہلی کتابوں میں اگر ان کا نام آرخ یا تارخ لکھا ہو تو قرآن کی بات ہی حق ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ آرخ یا تارخ اس کا لقب ہوگا، مگر یہ کہنا کہ ان کے باپ کا نام آزر نہیں تھا بلکہ یہ نام چچا کا تھا، بالکل ہی بےدلیل ہے۔
Top