Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 92
وَ اَمَّاۤ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَۙ
وَاَمَّآ : اور لیکن اِنْ كَانَ : اگر ہے مِنَ الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والوں میں سے الضَّآلِّيْنَ : بہکے ہوئے لوگوں میں سے
اور لیکن اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں سے ہوا۔
وَ اَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضََّآلِّیْنَ۔۔۔۔۔:”نزل“ مہمانی۔ (دیکھئے کہف : 102)”تصلیۃ“ ”صلی یصلی“ (ع) سے با ب تفعیل کا مصدر ہے ، داخل کرنا۔ ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث کا ایک حصہ آیت (88، 89) کی تفسیر میں گزر چکا ہے ، اس میں کفار کی موت کا بھی حال بیان ہوا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(واذا کان لرجل السوء قال اخرجی ایتھا النفس الخبیثۃ ! کانت فی الجسد الخبیث ، اخرجی ذمیمۃ وابشری بحمیم وغساق وآخر من شکلہ ازواج فلا یزال یقال لھا ذلک حتیٰ تخرج ثم یعرج بھا الی السماء فلا یفتح لھا فیقال من ھذا ؟ فیقال فلان، فیقال لا مرحبا ًبالنفس الخبیثۃ کانت فی الجسد الخبیث ارجعی ذمیمۃ قولھا لا تفتح لک ابواب السماء ، فیرسل بھا من السماء ثم تصیر الی القبر) (ابن ماجہ ، الزھد، باب ذکر الموت والا س تعداد لہ : 4262، وقال الالبانی صحیح)”اور جب آدمی برا ہو تو اسے (فرشتہ) کہتا ہے :”نکل اے خبیث جان جو خبیث جسم میں تھی ! اور بشارت سن کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کی اور دوسری اس کی ہم شکل کئی قسموں کی۔“ پھر اسے مسلسل یہی کہا جاتا ہے ، یہاں تک کہ وہ نکل آتی ہے۔ پھر اسے اوپر آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے ، مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور کہا جاتا ہے :”کون ہے ؟“ بتایا جاتا ہے کہ یہ فلاں ہے تو کہا جاتا ہے :”اس خبیث جان کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی مرحبا ہیں ، مذمت کی ہوئی حالت میں واپس لوٹ جا ، کیونکہ تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے“۔ پھر اسے آسمان سے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر وہ قبر کی طرف لوٹ جاتی ہے“۔
Top