Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 6
فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّاۙ
فَكَانَتْ : تو ہوجائیں گے هَبَآءً : باریک خاک۔ گرد و غبار مُّنْۢبَثًّا : منتشر۔ پراگندہ۔ اڑتا ہوا
پس وہ پھیلا ہوا غبار بن جائیں گے۔
1۔ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا :”ھباء ً“ غبار کے ان ذرات کو کہتے ہیں جو روشن دان سے کمرے میں آنے والی دھوپ میں چمک رہے ہوتے ہیں ، پکڑنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ”بث یبث بشا“ (ن) پھیلانا۔ ’ ’ انبت انبثاتا“ (انفعال) پھیلنا۔ ”مثبثاً ‘ ‘ اسم فاعل ہے ، پھیلنے والا۔ قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے احوال کے لیے دیکھئے سورة ٔ نبا کی آیت (20) کی تفسیر۔ 2۔ ان آیات میں ”اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ“ سے لے کر ”وَّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً“ تک بعض واقعات صور میں پہلے نفخہ کے وقت کے بیان فرمائے ہیں ، جیسے ”اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا“ اور ”َّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا“ ہے اور بعض دوسرے نفخہ کے وقت کے ہیں ، جیسے ”خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ“ اور ”َّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً“ اور بعض دونوں نفخوں میں مشرک ہیں ، جیسے ”اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ“ اور ”لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ“ ہے۔ چونکہ پہلے اور دوسرے نفحے کا سارا وقت قیامت ہی کا ہے ، اس لیے اس کے ہرجڑ کو ہر واقعہ کا وقت کہا جاسکتا ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں عموماً دونوں نفخوں کے نتیجے میں واقع ہونے والے معاملات اکٹھے ہی ذکر کیے گئے ہیں۔
Top