Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 58
اَفَرَءَیْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَؕ
اَفَرَءَيْتُمْ : کیا بھلا دیکھا تم نے مَّا تُمْنُوْنَ : جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو
تو کیا تم نے دیکھا وہ (نطفہ) جو تم ٹپکاتے ہو ؟
اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ۔۔۔۔۔۔:”تُمْنُوْنَ“”امنی یمنی امنا“ (افعال) (گرانا ، ٹپکانا) سے جمع مذکر حاضر مضارع معلوم ہے۔ ”افرء یتم“ میں رؤیت سے مراد رؤیت علمی ہے ، کیونکہ یہ آنکھوں سے نظر آنے والی چیز نہیں۔ (دیکھئے سورة ٔ یٰسین : 77) منی کے قطرے سے انسان کی پیدائش کا قیامت کی دلیل ہونا ایسی بات ہے جس پر غور کرنا ہر شخص پر واجب ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے ، فرمایا :(فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّـآئٍ دَافِقٍ) (الطارق : 5، 6) ”پس انسان کو لازم ہے کہ دیکھئے وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے“۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ طارق (5 تا 8) کی تفسیر۔ مفسر عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں :”پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ انسان کا نطفہ بذات خود کیا چیز ہے ؟ وہ کن چیزوں سے بنتا ہے ؟ پھر جن چیزوں سے بنتا ہے وہ زندہ تھیں یا مردہ ؟ اور اس نطفہ کے بننے یا بنانے میں تمہارا بھی کچھ عمل دخل یا اختیار تھا ؟ پھر اس نطفہ کو رحم مادر میں ٹپکانے کی حد تک تو اختیار انسان کو ہے ، اس کے بعد اس کا اختیار کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ نطفہ کا ایک قطرہ لاکھوں جراثیم ، کیڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جو صرف طاقتور خورد بین سے نظر آسکتے۔ اسی طرح رحم مادر میں نسوانی بیضہ کا وجود بھی خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ نطفہ کا ایک جرثومہ جب نسوانی بیضہ میں داخل ہوتا ہے ، پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خکیہ (Cell) بن جاتا ہے ، یہی انسانی زندگی کا نطفہ آغاز ہے اور اسی کا نام استقرارِ حمل ہے ، نطفہ ٹپکانے کی حد تک مرد کو اختیار ہے ، مگر یہ طاقت نہ مرد میں ہے نہ عورت میں اور نہ کی کسی اور ہستی میں کہ وہ نطفہ سے حمل کا استقرار کر ا دے ، پھر اس نقطہ ٔ آغاز سے ماں کے پیٹ کی تاریکیوں میں بچے کی درجہ بدرجہ پرورش ، ہر بچے کی الگ الگ صورت گری ، ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک امتیازی انسان بن کر اٹھے ، کیا یہ ایک خالق کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتا ہے ؟ یا اس میں ذرہ برابر بھی کسی (ڈاکٹر ، والی یا پیر فقیر یا کسی) دوسرے کا کوئی دخل ہے ؟ پھر یہ فیصلہ کرنا بھی اللہ کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکا ہو یا لڑکی ، خوش شکل ہو یا بد شکل ، اس کے نقوش تیکھے ہوں یا بھرے ؟ طاقتور اور قد کاٹھ والا ہو یا کمزور ، نحیف اور تھوڑے وزن والا ، تندرست ہو یا اندھا بہرا لنگڑا ، ذہین ہو یا کند ذہن۔ سب ایسی باتیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے اختیار میں ہیں ، کیا ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد بھی انسان یہ تصدیق نہیں کرسکتا کہ اسے پیدا کرنے والا اکیلا رب العالمین ہے اور یہ کہ وہ جو مردہ نطفے سے ہر روز لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسان اور دوسیر جاندار پیدا کر رہا ہے وہ مرنے کے بعد انسان کے بےجان ذرات کو دوبارہ بھی زندگی بخش سکتا ہے ؟“ (تیسیرالقرآن) اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر پہلی دفعہ پیدا کرنے کو دوبارہ پیدا کرنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ دیکھئے سورة ٔ روم (27) ، انبیائ (104) ، حج (5) ، یٰسین (77 تا 79) ، بنی اسرائیل (51) ، مریم (67) اور سورة ٔ قیامہ (36 تا 40)
Top