Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 47
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ جَعَلَ : جس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے الَّيْلَ : رات لِبَاسًا : پردہ وَّالنَّوْمَ : اور نیند سُبَاتًا : راحت وَّجَعَلَ : اور بنایا النَّهَارَ : دن نُشُوْرًا : اٹھنے کا وقت
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو لباس بنایا اور نیند کو آرام اور دن کو اٹھ کھڑا ہونا بنایا۔
وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا۔۔ : ”سُـبَاتًا“ اور ”سَبْتٌ“ (ن، ض) مصدر ہیں، راحت، سکون، قطع کرنا۔ کلام کا اسلوب بطور التفات متکلم سے غائب کی طرف واپس آگیا ہے۔ سائے اور دھوپ کے بعد رات اور دن کا ذکر فرمایا۔ جملے کے دونوں جز ”ھُوَ“ اور ”اَلَّذِی“ معرفہ ہونے سے اس میں قصر افراد پیدا ہو رہا ہے، یعنی رات دن بنانے والا وہ اکیلا ہی ہے، کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں۔ جب تم بھی مانتے ہو کہ رات دن کا ایک لمحہ بنانے میں کسی کا کوئی حصہ نہیں، تو ان کے اندر موجود کسی چیز کا داتا اور دستگیر کوئی دوسرا کیسے بن گیا ؟ ”جَعَلَ لَكُمُ“ میں توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دھوپ چھاؤں اور رات دن کا یہ سلسلہ تمہارے لیے بنایا ہے، وہ ہر چیز سے غنی ہے۔ رات کو لباس بنانے کا مطلب یہ ہے کہ روشنی راحت میں خلل انداز ہوسکتی تھی، لہٰذا اس نے رات کو تاریک بنادیا جو لباس کی طرح ہر چیز کو چھپا لیتی ہے۔ رات کی تاریکی میں کتنے ہی دینی و دنیوی فائدے ہیں، کسی غازی، کسی عابد شب بیدار، کسی علم کی لذت یا کسی اونچے مقصد کی لذت سے آشنا ہی کو اس کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ البتہ ایک فائدہ ایسا ہے جس سے کوئی بھی محروم نہیں رہتا، نہ اس سے کوئی مستغنی ہوسکتا ہے اور وہ ہے نیند، جو موت کی طرح تمہاری تمام حرکت قطع کر کے تمہیں مکمل سکون کی وادی میں لے جاتی ہے اور تمہاری تھکن دور کرتی اور پورے جسم کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کردیتی ہے۔ دیکھیے سورة انعام (60) اور زمر (42)۔ وَّجَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا : ”نُشُوْرًا“ میں دو مفہوم پائے جاتے ہیں، ایک یہ کہ نیند ایک طرح کی موت ہے اور دن کو بیدار ہونا قیامت کو اٹھنے کی ایک مثال ہے۔ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بستر پر جاتے تو کہتے : (بِاسْمِکَ أَمُوْتُ وَ أَحْیَا) ”تیرے ہی نام کے ساتھ میں مرتا ہوں اور زندہ ہوں گا۔“ اور جب بیدار ہوتے تو کہتے : (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَیْہِ النُّشُوْرُ) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : 6312 ] ”سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں موت دینے کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔“ دوسرا یہ کہ رات آرام کے لیے اور دن کام کاج اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے ہے۔ آیت میں اللہ کی توحید کی دلیل بھی ہے اور قیامت پر اس کی قدرت کا اظہار بھی اور نعمت کی یاد دہانی بھی۔ اور دیکھیے سورة قصص (73)۔
Top