Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 16
لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ خٰلِدِیْنَ١ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْئُوْلًا
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : اس میں مَا يَشَآءُوْنَ : جو وہ چاہیں گے خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے كَانَ : ہے عَلٰي رَبِّكَ : تمہارے رب کے ذمے وَعْدًا : ایک وعدہ مَّسْئُوْلًا : مانگا ہوا
ان کے لیے اس میں جو چاہیں گے ہوگا، ہمیشہ رہنے والے، یہ تیرے رب کے ذمے ہوچکا، ایسا وعدہ جو قابل طلب ہے۔
لَهُمْ فِيْهَا مَا يَشَاۗءُوْنَ خٰلِدِيْنَ :”لَھُم“ اور ”فِیْھَا“ کو پہلے لانے میں حصر کا مفہوم ہے، یعنی یہ نعمت کہ جو چاہیں مل جائے، صرف متقی لوگوں کو حاصل ہوگی اور انھیں بھی صرف جنت میں ملے گی۔ دنیا میں یہ نعمت نہ متقی لوگوں کو حاصل ہے نہ غیر متقی لوگوں کو۔ دنیا میں ہر ایک کا حال وہ ہے جو شاعر نے بیان کیا ہے ؂ مَا کُلُّ مَا یَتَمَنَّی الْمَرْءُ یُدْرِکُہُ تَجْرِی الرِّیَاحُ بِمَا لَا تَشْتَھِی السُّفُنُ ”ایسا نہیں کہ آدمی جو بھی تمنا کرے اسے حاصل ہی کرلے، کیونکہ ہوائیں کشتیوں کی خواہش کے خلاف چلا کرتی ہیں۔“ سورۂ حٰمٓ السجدہ کی آیت (31) : (وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ) میں بھی اسی آیت کا مضمون بیان ہوا ہے۔ 3 یہاں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ جنتیوں کو جب ہر وہ چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کریں گے تو اگر وہ نبیوں کے مرتبے کی خواہش کریں تو کیا انھیں وہ بھی حاصل ہوجائے گا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ایسی تمنا پیدا ہی نہیں ہوگی، وہ سب اپنے اپنے شغل ہی میں خوش ہوں گے اور سب حسد اور تنافس سے پاک اپنی حالت پر خوش ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰكِــهُوْنَ) [ یٰسٓ : 55 ] ”بیشک جنت کے رہنے والے آج ایک شغل میں خوش ہیں۔“ اور جنت میں درجوں کا تفاوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے ہے۔ ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (إِنَّ أَھْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاءَ وْنَ أَھْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِھِمْ کَمَا یَتَرَاءَ وْنَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَھُمْ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ۔۔ : 3256 ] ”اہل جنت اپنے اوپر کے بالاخانوں والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ نہایت چمک دار تارے کو دیکھتے ہیں، جو مشرق یا مغرب کے دور افق میں ہوتا ہے، ان کی ایک دوسرے کے درمیان درجوں کی برتری کی وجہ سے۔“ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ وَعْدًا مَّسْـُٔـوْلًا : اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ یہ وعدہ اس قابل ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے پورا کرنے کی دعا کی جائے، یا یہ ایسا وعدہ ہے جو مانگنے پر یقیناً پورا کیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ”اولوا الباب“ (مومنوں) کی دعا ذکر فرمائی ہے، جو وہ کیا کرتے ہیں : (رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭاِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ) [ آل عمران : 194 ] ”اے ہمارے رب ! اور ہمیں عطا فرما جس کا وعدہ تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، بیشک تو وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“ طبری نے بعض اہل عربیت سے ”وَعْدًا مَّسْـُٔـوْلًا“ کا معنی ”وَعْدًا وَاجِبًا“ نقل فرمایا ہے، کیونکہ جس چیز کا سوال یا مطالبہ ہوسکتا ہو وہ واجب ہوتی ہے، خواہ مطالبہ نہ ہی کیا جائے، مثلاً قرض، جیسا کہ عرب کہتے ہیں : ”لَأُعْطِیَنَّکَ أَلْفًا وَّعْدًا مَسْءُوْلًا“ ”میں تمہیں ایک ہزار دوں گا، یہ مسؤل وعدہ ہے۔“ یعنی تمہارے لیے واجب ہے، تم اس کا سوال اور مطالبہ کرسکتے ہو۔
Top