Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا، پھر تم نے اس کے بارے میں جھگڑا کیا اور اللہ اس بات کو نکالنے والا تھا جو تم چھپا رہے تھے۔
فَادّٰرَءْتُمْ اصل میں ”فَتَدَرَأْتُمْ“ تھا، باب تفاعل کی تاء کو دال میں بدل کر دال میں ادغام کردیا ادغام کرنے سے شروع والا حرف مدغم ساکن ہوا تو ساکن کو پڑھنے کے لیے شروع میں ہمزہ لائے، پھر شروع میں فاء آنے سے ہمزہ تلفظ سے ساقط ہوگیا، لکھنے میں موجود ہے۔ بنی اسرائیل کے کسی شخص نے دوسرے کو قتل کردیا اور جو لوگ قاتل کو جانتے تھے انھوں نے اس پر پردہ ڈال دیا۔ اب وہ ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے اور جھگڑا شروع ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے ذبح شدہ گائے کا کوئی حصہ مقتول پر مارنے کا حکم دیا، جس سے اس نے زندہ ہو کر قاتل کی نشان دہی کردی۔ اتنی بات ان آیات سے صاف ظاہر ہے۔ تفاسیر میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مال دار شخص کو اس کے بھتیجے نے قتل کردیا، تاکہ اس کا وارث بن جائے، پھر رات کو لاش اٹھا کر دوسرے شخص کے دروازے پر ڈال دی اور صبح کے وقت ان پر قتل کا دعویٰ کردیا۔ اس پر دونوں طرف سے ہتھیار نکل آئے، لڑائی ہونے ہی والی تھی کہ بعض لوگوں نے کہا، اللہ کے رسول موسیٰ ؑ سے پوچھ لو۔ بالآخر موسیٰ ؑ نے انھیں یہ حکم دیا۔ حافظ ابن کثیر ؓ یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کی تفصیلات اسرائیلیات سے لی گئی ہیں، ان پر کلی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ قصہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے قتل سے شروع ہوتا ہے، اس لیے اس کا مقام پہلے تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کرنے کا حکم پہلے ذکر فرمایا، تاکہ بنی اسرائیل کی نافرمانی کے متعدد مناظر سامنے آسکیں، مثلاً گائے ذبح کرنے سے پہلوتہی، بار بار سوال کرنا، ناحق قتل کرنا، پھر اسے چھپانے کی کوشش کرنا۔ اگر آیات کی ابتدا قتل نفس سے ہوتی تو یہ ایک ہی واقعہ معلوم ہوتا اور بنی اسرائیل کی نافرمانی کے متعدد پہلو نمایاں نہ ہوتے۔ (زمخشری) مگر ابوحیان نے فرمایا، ظاہر بات یہ ہے کہ واقعات کی ترتیب بھی اس طرح ہے جس طرح آیات کی ترتیب ہے، چناچہ حقیقت یہی ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے انھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا، انھیں اس کا راز معلوم نہ تھا، پھر ان میں قتل کا واقعہ ہوگیا، تو ان کے لیے گائے ذبح کرنے کی (ایک اور) حکمت بھی ظاہر کردی گئی۔ ہمیں کوئی مجبوری نہیں کہ ہم بعد والے واقعہ کو پہلے اور پہلے کو بعد والا قرار دیں۔ رہی تاریخ میں مذکور کہانیاں تو ان کا کچھ اعتبار نہیں۔ [ البحر المحیط ] ابو حیان کی بات واقعتا وزن رکھتی ہے۔ اس سے گائے ذبح کرنے کے حکم کی اہمیت و حکمت زیادہ واضح ہوتی ہے، جو کہ گاؤ پرستی کی جڑ پر کلہاڑا مارنا ہے۔ كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى) اس سے صاف ظاہر ہے کہ گائے کا ٹکڑا مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا۔ فرمایا : ”اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے“ یعنی یہ واقعہ قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنے کی بھی ایک دلیل اور نشانی ہے، کیونکہ جو ایک مردہ کو زندہ کرسکتا ہے وہ تمام مردوں کو بھی زندہ کرنے پر قادر ہے، فرمایا : (مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ) [ لقمان : 28 ] ”نہیں ہے تمہارا پیدا کرنا اور نہ تمہارا اٹھانا مگر ایک جان کی طرح۔“ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ مقامات پر دنیا میں مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے : 1 (ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ) [ البقرۃ : 56 ] 2 اس مقتول کا قصہ جو یہاں ذکر ہوا ہے۔ 3 ان لوگوں کا قصہ جو موت سے ڈر کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے تھے۔ [ البقرۃ : 243 ] 4 اس شخص کا قصہ جو ایک برباد شہر سے گزرا۔ [ البقرۃ : 259 ] 5 ابراہیم ؑ اور چار پرندوں کا قصہ۔ [ البقرۃ : 260 ] اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعے زمین کو زندہ کرنے سے جسموں کو دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کیا ہے۔ [ یٰسٓ : 33 ]
Top