Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا : اور ہم نے کہا يَا آدَمُ : اے آدم اسْكُنْ : تم رہو اَنْتَ : تم وَزَوْجُکَ : اور تمہاری بیوی الْجَنَّةَ : جنت وَكُلَا : اور تم دونوں کھاؤ مِنْهَا : اس میں سے رَغَدًا : اطمینان سے حَيْثُ : جہاں شِئْتُمَا : تم چاہو وَلَا تَقْرَبَا : اور نہ قریب جانا هٰذِهِ : اس الشَّجَرَةَ : درخت فَتَكُوْنَا : پھر تم ہوجاؤگے مِنَ الظَّالِمِیْنَ : ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم ! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہوجاؤ گے۔
اس آیت میں آدم ؑ کی تیسری فضیلت کا بیان ہے کہ فرشتوں سے سجدہ کروانے کے بعد انھیں جنت کی سکونت عطا فرمائی۔ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ حوا [ اس وقت پیدا ہوچکی تھیں، ان کی پیدائش کے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء (1) اور سورة اعراف (189)۔ یہ کون سا درخت تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمایا، نہ نبی کریم ﷺ نے بتایا، اگر اس کی ضرورت ہوتی، یا اس سے کوئی فائدہ ہوتا تو ضرور بتادیا جاتا۔ بعض مفسرین نے گندم یا انگور یا انجیر وغیرہ کا نام لیا ہے، مگر یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ وَلَا تَـقْرَبَا اس درخت کے کھانے سے بچنے کے لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا۔ اس سے شریعت کا قاعدہ سد ذرائع ثابت ہوتا ہے، یعنی جو چیز حرام کا ذریعہ بنتی ہے اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً 1 زنا سے بچنے کے لیے اس کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى) [ بنی إسرائیل : 32 ] ”اور زنا کے قریب مت جاؤ۔“ حرام سے بچنے کے لیے مشتبہات یعنی شبہ والی چیزوں سے بچنے کا حکم دیا۔ نعمان بن بشیر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، بیشک حلال بالکل ظاہر ہے اور بیشک حرام بالکل ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ (شبہ والی) چیزیں ہیں جنھیں بہت سے لوگ نہیں جانتے، تو جو شخص شبہات سے بچے گا وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو پوری طرح بچا لے گا اور جو شبہات میں پڑجائے گا، وہ حرام میں پڑجائے گا، جیسے وہ چرواہا جو ممنوعہ چراگاہ میں جانور چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے اندر چرنے لگے۔ یاد رکھو ! اور ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ [ مسلم، المساقاۃ والمزارعۃ، باب أخذ الحلال و ترک الشبہات : 1599 ] اللہ تعالیٰ کو گالی سے بچانے کے لیے معبودان باطل کو گالی دینے سے منع فرمایا : (وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ) [ الأنعام : 108 ] ”اور انھیں گالی نہ دو جنھیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، پس وہ زیادتی کرتے ہوئے کچھ جانے بغیر اللہ کو گالی دیں گے۔“
Top