Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 193
وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ
وَقٰتِلُوْھُمْ : اور تم ان سے لڑو حَتّٰى : یہانتک کہ لَا تَكُوْنَ : نہ رہے فِتْنَةٌ : کوئی فتنہ وَّيَكُوْنَ : اور ہوجائے الدِّيْنُ : دین لِلّٰهِ : اللہ کے لیے فَاِنِ : پس اگر انْتَهَوْا : وہ باز آجائیں فَلَا : تو نہیں عُدْوَانَ : زیادتی اِلَّا : سوائے عَلَي : پر الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر کوئی زیادتی نہیں۔
یعنی ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک فتنہ (شرک اور اس پر مجبور کرنے کے لیے ظلم و ستم) کا ہر طرح سے قلع قمع نہیں ہوتا اور اللہ کا دین ہر طرح سے غالب نہیں آجاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پھر جب وہ یہ کام کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے اموال مجھ سے محفوظ کرلیے مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔“ [ بخاری، الإیمان، باب (فإن تابوا وأقاموا۔۔) : 25 ] اِلَّا عَلَي الظّٰلِمِيْنَ) یعنی اگر یہ شرک سے یا مسلمانوں کے ساتھ لڑائی سے باز آجائیں تو اس کے بعد جو شخص ان سے جنگ کرے گا وہ ظالم ہے اور اسے اس زیادتی کی سزا ملے گی۔ یہاں ”عُدْوَانَ“ کا لفظ ایسی ہی سزا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ (ابن کثیر) دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر وہ ظلم یعنی شرک سے باز آجائیں تو اب ان پر زیادتی جائز نہیں، کیونکہ اب وہ ظالم نہیں۔ عدوان سے مراد وہ زیادتی ہے جو مقابلے میں ہوتی ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے : (فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠) [ البقرۃ : 194] ”پس جو تم پر زیادتی کرے سو تم اس پر زیادتی کرو، اس کی مثل جو اس نے تم پر زیادتی کی ہے۔“ (ابن کثیر)
Top